طالبان کو تسلیم کرنے کا مرحلہ ابھی دور ہے: شاہ محمود قریشی

عرب نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں طالبان حکومت تسلیم کرنے کے حوالے سے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ’یہ مرحلہ ابھی نہیں آیا۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس مرحلے پر(طالبان کو) تسلیم کرنے کی بین الاقوامی خواہش موجود ہے، عالمی برادری کو ابھی دیگر بہت توقعات ہیں۔‘

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ طالبان رہنماؤں کو بتا دیا گیا ہے کہ عالمی برادری کو ان سے چار ترجیحی مسائل کے حل کی توقع ہے (تصویر: عرب نیوز)

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق ’پاکستان کی جانب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا مرحلہ ابھی نہیں آیا۔‘

جمعے کو ان کا یہ بیان اسلامی تعاون تنظیم کے خصوصی اجلاس سے قبل سامنے آیا ہے جس کی میزبانی اسلام آباد کر رہا ہے جب کہ افغانستان کو سر پر منڈلاتے معاشی اور انسانی بحران کا سامنا ہے۔ 

عرب نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ’یہ مرحلہ ابھی نہیں آیا۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس مرحلے پر(طالبان کو) تسلیم کرنے کی بین الاقوامی خواہش موجود ہے۔ عالمی برادری کو ابھی دیگر بہت توقعات ہیں۔‘

ان توقعات میں افغانستان میں شمولیتی حکومت کا قیام، انسانی حقوق کے حوالے سے یقین دہانی، خاص طور پر اقلیتوں، خواتین اور لڑکیوں کے حقوق شامل ہیں، جن کے کردار کو 1996 سے 2001 تک سختی کے ساتھ محدود کر دیا گیا۔2001 میں امریکی قیادت میں افغانستان پر حملے کے نتیجے میں طالبان کی حکومت ختم ہو گئی۔

اتوار کو او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے 17ویں غیر معمولی اجلاس کی میزبانی کرنے والے پاکستان کا یہ بیان افغان طالبان کے لیے ایک دھچکا ثابت ہو گا جو کئی مہینوں سے یہ استدلال کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں ناکامی سے مالی اور انسانی بحران کو طول ملے گا جو بالآخر عالمی سطح کے مسئلے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

اس اجلاس میں اسلامی ملکوں کے وزرائے خارجہ سمیت یورپی یونین کے نمائندے، امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی  سمیت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان شریک ہوں گے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ انہوں نے طالبان رہنماؤں کو بتا دیا ہے کہ عالمی برادری کو ان سے توقع ہے کہ ان چار مسائل کو ترجیحاً حل کیا جائے گا۔ ’وہ آپ سے چاہتے ہیں کہ آپ کے پاس ایک شمولیتی سیاسی منظرنامہ ہو۔ وہ آپ سے چاہتے ہیں کہ آپ انسانی حقوق کا احترام کریں، خاص طور پر خواتین کے حقوق۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپ القاعدہ اور داعش جیسی عالمی دہشت گرد تنظیموں کو جگہ نہ دیں اور وہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ ملک سے جانا چاہتے ہیں انہیں محفوظ راستہ فراہم کیا جائے۔‘

اتوار کو ہونے والی او آئی سی سمٹ کے بارے میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیرخان متقی اور افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے ٹام ویسٹ کے درمیان ملاقات کے لیے سہولت فراہم کرکے خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ دونوں رہنما او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بقول: ’میرا خیال ہے کہ یہ (سمٹ) او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس کے ذریعے عالمی برادری کو موقع فراہم کر سکتی ہے کہ وہ سنیں کہ افغان طالبان کیا کہنا چاہتے ہیں۔ جس بات کی مجھے توقع ہے، وہ یہ ہے کہ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے عالمی برادری کی توجہ افغانستان کے تمام تر حالات کی طرف مبذول کروائی جائے گی۔ افغانستان میں عالمی بحران سر پر منڈلا رہا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں معاشی استحکام اور امن صرف علاقائی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اسے حل نہ کرنے کی صورت میں مغربی ملکوں کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔ تشویش کی سب سے بڑی بات معاشی بنیادوں پر ترک وطن کرنے والوں کا مسئلہ ہے۔

شاہ محمود قریشی کے مطابق ’اگر معاملات بگڑ گئے تو میں پناہ گزینوں کی نئی لہر دیکھ رہا ہوں۔ ان پناہ گزینوں کی اکثریت معاشی مسائل کی وجہ سے ترک وطن کرنے والوں کی ہو گی۔ یہ لوگ پاکستان، ایران، تاجکستان یا ترکمانستان میں نہیں رکنا چاہیں گے بلکہ سیدھا یورپ جائیں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ یورپ کو اس مسئلے پر توجہ دینی ہو گی جس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ افغانستان میں امن اور سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔

اگست کے وسط میں طالبان کی طرف سے اقتدار سنبھال لینے کے بعد عالمی برادری نے کابل میں طالبان کی نئی انتظامیہ پرپابندیاں عائد کر دی تھیں۔ امریکہ اور امداد دینے والے دوسرے اداروں نے طالبان حکومت کی وہ مالی امداد فوری طور پر بند کر دی جس پر افغانستان 20 سالہ جنگ کے دوران انحصار کرتا آ رہا تھا۔ اس کے علاوہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک کے نو ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے گئے۔ تاہم دنیا کابل میں نئے حکمرانوں کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے سے پہلے انتظار کر رہی ہے، احتیاط سے کام لیا جا رہا ہے کہ یقین دہانیوں کے برعکس طالبان اسی طرح کی سخت حکومت مسلط کر سکتے ہیں جیسا انہوں نے 20 سال پہلے کیا جب وہ اقتدار میں تھے۔

افغان کرنسی کی قدر میں کمی اور قیمتوں کے آسمان کو چھونے کے ساتھ ساتھ افغانستان کی مالی بحران نے شہریوں کو خوراک اور دیگر ضروری اشیا کے لیے رقم جمع کرنے کی خاطر گھریلو سامان بیچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے خبردار کیا جا رہا ہے کہ افغانستان کے تقریباً دو کروڑ 30 لاکھ شہری یعنی 55 فیصد کے لگ بھگ آبادی شدید بھوک کا شکار ہو سکتی ہے۔ غربت کے شکار اور سمندر سے محروم ملک میں سردی بڑھتے ہی 90 لاکھ لوگ قحط کا شکار ہو سکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان