پشاور میں جے یو آئی کی ’برتری‘، حکمران اور دیگر جماعتیں پریشان

19 دسمبر کو خیبرپختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے قبل یہی سمجھا جاتا رہا کہ زیادہ سخت مقابلہ پی ٹی آئی اور  اے این پی کےدرمیان ہوگاجبکہ اس کے مقابلےمیں تیسرا حریف پیپلزپارٹی کو سمجھا جاتا رہا، یہی وجہ ہے کہ جے یو آئی کی سبقت نے سب کو حیران کردیا

الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا دفتر کے ترجمان سہیل احمد  کے مطابق کہ اگرچہ بدنظمی اور قتل کے چند واقعات پیش آئے لیکن 2015 کے برعکس یہ انتخابات بہت حدتک پُر امن رہے (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں 19 دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے غیر حتمی نتائج کا سلسلہ جاری ہے جبکہ سرکاری نتائج 24 دسمبر تک متوقع ہیں۔ دوسری جانب سینیٹ کی خالی نشست پر بھی انتخاب کے لیے صوبائی اسمبلی میں پولنگ جاری ہے۔

بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے اب تک کے غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق پشاور میں سٹی میئر کی نشست پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے امیدوار مدمقابل ہیں، جبکہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، جماعت اسلامی اور دیگر اس دوڑ میں کافی پیچھے رہ گئے ہیں۔

اگرچہ پشاور میں 80 سے زائد پولنگ سٹیشنز کے نتائج آنا ابھی باقی ہیں، تاہم اب تک کے نتائج کے مطابق پشاور میں سٹی میئر کے اہم عہدے پر جمعیت علمائے اسلام ف کے امیدوار زبیر علی تقریباً 24 ہزار ووٹوں کے ساتھ پہلے، پی ٹی آئی کے رضوان بنگش تقریباً 21 ہزار ووٹوں کے ساتھ دوسرے اور پیپلز پارٹی کے ارباب زرک تقریباً 20 ہزار ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔

دیگر اضلاع میں کیا صورت حال رہی؟

الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا دفتر کی جانب سے اب تک صوبے کے دیگر اضلاع کے حوالے سے جاری کیے گئے غیر حتمی نتائج کے مطابق ضلع صوابی کی تحصیل چھوٹا لاہور میں تحصیل چیئرمین کے عہدے پر پاکستان مسلم لیگ ن کو 22036 ووٹوں کے ساتھ برتری حاصل ہے جبکہ دوسرے نمبر پر جمعیت علمائے اسلام ف 14820 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر اور پی ٹی آئی 12128 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

اسی طرح قبائلی اضلاع میں ضلع مہمند کی تحصیل بائیزئی میں بھی تحصیل چیئرمین کے عہدے پر جمعیت علمائے اسلام ف اب تک کے غیر حتمی نتائج کے مطابق 4788 ووٹوں کے ساتھ آگے ہیں۔

 تحصیل صوابی میں تحصیل چیئرمین کے عہدے پر پی ٹی آئی پہلے نمبر پر ، مسلم لیگ ن دوسرے اور اے این پی تیسرے نمبر پر ہے۔

دیگر ذرائع سے موصول ہونے والے غیر سرکاری وغیر حتمی نتائج کے مطابق، کوہاٹ میں جے یو آئی ف کے قاری شیر زمان پہلے نمبر پر، آزاد امیدوار شفیع جان دوسرے نمبر پر اور پی ٹی آئی تیسرے نمبر پر رہی۔

کوہاٹ کے ایک رہائشی صدیق کا کہنا ہے کہ شفیع جان پی ٹی آئی کے دیرینہ کارکن تھے اور ان کے ساتھ ٹکٹ میں ناانصافی کی وجہ سے ووٹ بینک تقسیم ہوگیا۔

تحصیل لاچی سے آزاد امیدوار محمد احسان نے تحصیل چیئرمین کے عہدے پر سابقہ وزیر قانون امتیاز قریشی کے بیٹے کو شکست دی۔ اس حوالے سے بھی عوام کا موقف ہے کہ اس کے باوجود کہ امتیاز قریشی 2018 کا الیکشن ہار چکے تھے، محمد احسان کو نظر انداز کرکے امتیاز قریشی کے بیٹے کو ٹکٹ سے نوازا گیا۔

تحصیل چیئرمین کے عہدے پر ہنگو سے آزاد امیدوار عامر غنی نے پی ٹی آئی اور جے یو آئی کو مات دی جبکہ ٹل میں جے یو آئی کے مفتی عمران محمد تحصیل چیئرمین کے عہدے پر کامیاب رہے، تاہم بونیر میں پی ٹی آئی کو چغرزئی، ڈگر اور کاگرہ میں تحصیل سیٹوں پر کامیابی حاصل رہی۔ البتہ بونیر کے خدوخیل میں اے این پی کو کامیابی حاصل رہی۔

جے یو آئی ف کیونکر آگے ہے؟

خیبر پختونخوا اور خصوصاً پشاور میں میئر کی نشست پر جے یو آئی کی برتری نے نہ صرف حکمران جماعت بلکہ دیگر کو بھی حیران کردیا ہے، کیونکہ انتخابات کے آخر تک یہی سمجھا جاتا رہا کہ زیادہ سخت مقابلہ پی ٹی آئی اور اے این پی کے درمیان ہوگا جبکہ اس کے مقابلے میں تیسرا حریف پیپلز پارٹی کو سمجھا جاتا رہا۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما کامران بنگش نے انتخابات سے قبل انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا تھا کہ انہوں نے پشاور میں انتخابات کے حوالے سے سات سروے کیے اور سب سے آخری سروے کے مطابق سخت مقابلہ پی ٹی آئی اور  اے این پی کے درمیان ہوگا، جب کہ دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی اور جے یو آئی مدمقابل ہوں گے۔

تاہم جے یو آئی کی برتری سے تمام سیاسی جماعتیں بوکھلا گئی ہیں اور وہ اس حوالے سے کچھ بھی کہنے سے فی الحال گریز کر رہی ہیں۔

تاہم سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پر چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ ایسے حالات میں کہ جب انتخابی مہم کے دوران دیگر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات لگا رہی تھیں اور توجہ دھاندلی اور دیگر موضوعات پر رہی، جے یو آئی نے کامیابی کے ساتھ انتخابات کی منصوبہ بندی کی اور ہمیشہ کی طرح مسجد اور لاؤڈ سپیکر کو استعمال کیا گیا، جبکہ ان کے انتخابی نشان کتاب کو قرآن سے تشبیہ دی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انتخابات کے روز حیات آباد کے پولنگ سٹیشن میں ایک خاتون نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا تھا کہ زیادہ تر مدرسے کی برقع پوش خواتین ووٹ ڈالنے آرہی ہیں، جنہیں سوزوکی اور پک اپ گاڑیوں میں ایک ساتھ لایا اور لے جایا جارہا تھا۔

انتخابات کے حوالے سے آنے والی مختلف خبروں میں ایک ایسی ویڈیو بھی ہے جس میں جمعیت علمائے اسلام کے پشاور سے سینیٹر حاجی غلام علی، جن کے بیٹے زبیر علی میئر کی نشست کے لیے امیدوار تھے، چیختے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے اس الیکشن پر 20 کروڑ لگائے ہیں۔

پی ٹی آئی کے ایک صوبائی رکن اسمبلی نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اانہیں ’یقین ہے کہ یہ رقم 20 کروڑ سے بھی زیادہ ہے اور حاجی غلام علی نے پیسے دے کر الیکشن جیتنے کی کوشش کی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’ان لوگوں نے پہلے اے این پی اور پیپلز پارٹی کو ساتھ ملا کر حکمران جماعت پر دھاندلی کا الزام لگایا تاکہ توجہ کسی اور جانب مبذول کروا سکیں اور بعد میں اگر انہیں شکست ہو تو پی ٹی آئی کو مورد الزام ٹھہرا سکیں۔ پیسے کا استعمال کرکے جس طرح الیکشن ہائی جیک کرنے کی کوشش کی گئی یہ پشاور اور  اس صوبے کی سیاست کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔‘

پشاور میں میئر کی نشست کے لیے کئی آزاد امیدواروں نے بھی حصہ لیا جن میں امین جان، شمشیر خان، عامر اقبال، خلیل کفایت اللہ، محمد ابراہیم، محمد صدیق پراچہ اور ندیم خان وغیرہ شامل ہیں۔

تاہم جن بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے جن نمائندوں کو ٹکٹ دیے، ان پر کچھ ایسے اعتراضات بھی سامنے آتے رہے کہ یکسر نئے اور ناتحربہ کار نوجوانوں کو ٹکٹ دینا اس شہر اور عوام کے لیے سودمند ثابت نہیں ہوگا۔

2021 کے بلدیاتی الیکشن کی خاص باتیں

اس بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں پہلی دفعہ قبائلی اضلاع بھی شامل تھے۔

پسماندہ دیہی علاقوں سے بھی خواتین نے سیاست میں حصہ لیا اور خواتین بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے بھی آئیں۔

الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا دفتر کے ترجمان سہیل احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگرچہ بدنظمی اور قتل کے چند واقعات پیش آئے لیکن 2015 کے برعکس یہ انتخابات بہت حدتک پُر امن رہے۔

واضح رہے کہ یہ رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں کہ ایک جیتنے والے امیدوار زکریا خان فتح کے بعد خوشی میں کی گئی ہوائی فائرنگ کے دوران ایک گولی کا نشانہ بن کر چل بسے۔

سہیل احمد نے مزید کہا کہ ’ایک نمایاں بات اس الیکشن کی یہ بھی رہی کہ اس میں کسی سیاسی جماعت نے اتحاد نہیں کیا بلکہ سب انفرادی طور پر ان مقابلوں کے لیےکمربستہ رہے۔‘

ایک اور اہم بات اس الیکشن کی یہ بھی رہی کہ زیادہ تر امیدواروں نے پارٹی ٹکٹ ہونے کے باوجود آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا، جب کہ بعض علاقوں سے آزاد امیدواروں نے بڑے بڑے سیاسی حریفوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔

19 دسمبر کو خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں 17 اور دوسرے مرحلے میں 18 اضلاع شامل ہوں گے۔ دوسرے مرحلے کے انتخابات کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے، تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان خیبر پختونخوا کے مطابق کئی علاقوں میں برفباری اور خراب حالات کی وجہ سے یہ انتخابات تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں۔

ان بلدیاتی انتخابات میں سب سے اہم عہدہ سٹی میئر اور چیئرمین کونسل کا ہوتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان