پشاور پریس کلب حملہ: ’خدا ایسا دن کسی کو نہ دکھائے‘

22 دسمبر کی صبح تقریباً 11 بج کر 45 منٹ پر ایک شخص کلب کے داخلی دروازے سے اندر داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے۔

22 دسمبر 2009 کو پشاور پریس کلب پر شدت پسندوں کی جانب سے خودکش حملہ کیا گیا تھا (اے ایف پی/ فائل)

پشاور پریس کلب کے انتخابات کے دنوں میں کلب ممبران کا رش معمول سے کچھ زیادہ تھا۔ بعض صحافی سردی کو بھگانے کے لیے دھوپ کے مزے لے رہے تھے جبکہ بعض صدر  اور جنرل سیکرٹری کے دفتر میں بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے۔ 

عموماً پشاور پریس کلب میں سالانہ انتخابات 30 دسمبر کو منعقد کیے جاتے ہیں تو یہی وجہ تھی کہ کلب میں تقریباً 70 کے قریب صحافی و کلب عملہ موجود تھا۔

ریلوے سٹیشن کی طرف کھلنے والا دروازہ دھماکے سے پہلے کلب کا داخلی راستہ تھا جس پر صحافی سمیت پریس کانفرنس یا دیگر مہمان بھی داخل ہوتے تھے۔ 

22 دسمبر 2009 کی صبح تقریباً 11 بج کر 45 منٹ پر ایک شخص کلب کے داخلی دروازے سے اندر داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے۔

دروازے پر کھڑے پولیس اہلکار ریاض الدین ان سے پوچھ گچھ کرتے ہیں تو جواب میں وہ شخص کہتا ہے کہ انہیں پشاور پریس کلب کے اس وقت کے صدر شمیم شاہد سے ملنا ہے۔

اور یہ کہتے ہی پریس کلب میں دھماکے کی گونج سنائی دیتی ہے جس کی آواز پورے شہر نے سنی۔ 

خود کش حملہ آور کا حملہ ناکام بنانے والے گیٹ پر ڈیوٹی سر انجام دینے والے پولیس اہلکار ریاض الدین تھے۔ 

دھماکے کے چند چشم دید گواہان میں ایک کلب کے اس وقت کے چوکیدار محمد ایوب ہیں جو دھماکے میں ایک ہاتھ سے معذور ہو گئے تھے۔

محمد ایوب نے اس دھماکے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’خدا ایسا دن کبھی بھی کسی کو نہ دکھائے۔‘

انھوں نے بتایا کہ معمول کے مطابق وہ گیٹ پر پولیس اہلکار کے ساتھ ڈیوٹی پر مامور تھے لیکن چند ہی لمحوں کے لیے وہ دروازے سے دوسری جانب پریس کلب کے اس وقت کے اکاؤنٹنٹ اقبال سے ملنے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جیسے ہی میں اقبال سے ملنےگیا تو خود کش حملہ آور گیٹ پر تھا۔ اس وقت ہمیں اندازہ تو نہیں تھا لیکن میں معمول کے مطابق اس شخص کی چیکنگ کے لیے آگے بڑھا تو کمرے سے پولیس اہلکار ریاض الدین بھی نکل آئے۔ جب وہ آئے تو میں واپس اقبال کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔‘ 

ایوب نے بتایا کہ اس وقت گیٹ پر موجود سپیشل برانچ کے اہلکاروں کا کہنا تھا کہ اس شخص سے جب ریاض الدین نے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو، تو جواب میں انہوں نے بتایا کہ انہیں شمیم شاہد سے ملنا ہے اور یوں دھماکہ ہوگیا۔

’کلب میں قیامت کا سماں تھا۔ میں اور اکاونٹنٹ زخمی حالت میں پڑے تھے جبکہ گیٹ پر ریاض الدین بھی گرے پڑے تھے۔ بہت دیر تک کسی کو سمجھ نہیں آئی کیا ہوگیا ہے، کیونکہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ پریس کلب کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔‘

ایوب نے بتایا کہ ’میرے ہاتھ اور بازو زخمی تھے اور ایک ہاتھ سے ابھی تک معذور ہوں اور معذوری کی وجہ سے زخمی ہاتھ سن ہوگیا ہے جس کو ہلا نہیں سکتا ہوں۔‘

شمیم شاہد جو اس وقت پشاور پریس کلب کے صدر تھے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خود کش حملہ آور کی جانب سے صدر سے ملنے کی بات کی ویڈیو (سی سی ٹی وی) بھی موجود ہے لیکن اس وقت میں اپنے دفتر میں موجود نہیں تھا اور پشاور ہائی کورٹ کے قریب تھا۔ 

’دھماکے کی آواز سنتے ہی مجھے پریس کلب سے کال آئی کہ جلدی کلب پہنچیں دھماکہ ہوا ہے۔ میں اور اس واقت فرنٹیئر کانسٹبلری کے سربراہ صفوت غیوت(جو بعد کیں ایک دھماکے میں نشانہ بنے) ایک ساتھ پریس کلب پہنچ گئے اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا۔‘ 

شمیم شاہد نے بتایا کہ یہ پاکستان اور دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ کسی کلب کو نشانہ بنایا گیا تھا تاہم ابھی تک اس واقعے کی کوئی تحقیقات نہیں کی گئی اور اس کیس کی فائل بند کر دیی گئی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’پشاور کے صحافیوں نے بہت سخت وقت میں رپورٹنگ کی لیکن اس قسم کے واقعات سے کبھی گھبرائے نہیں اور ابھی تک اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان