ہانگ کانگ یونیورسٹی نے 1989 میں چین کے تیانانمن سکوائر پر ہونے والے قتل عام کا یادگاری مجسمہ ہٹا دیا ہے، جسے ’شرمندگی کا ستون‘ بھی کہا جاتا ہے۔
ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے مجسمہ ساز گیلشیوٹ نے چار جون 1989 کو چین کے دارالحکومت بیجنگ کے تیانانمن سکوائر میں جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف خونریز فوجی کریک ڈاؤن کے دوران جان سے جانے والوں کی علامت کے طور پر یہ مجسمہ بنایا تھا۔
آٹھ میٹر (26 فٹ) طویل اس ستون میں 50 لاشوں کو ایک دوسرے کے اوپر ڈھیر کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ڈینش مجسمہ ساز کے اعتراضات کے باوجود اسے جمعرات کی رات ہٹا دیا گیا۔
اکتوبر میں یہ مجسمہ اس وقت تنازع کی وجہ بن گیا، جب یونیورسٹی نے مطالبہ کیا کہ اسے ہٹا دیا جائے، یہاں تک کہ اس فیصلے پر کارکنوں اور حقوق گروپوں کی جانب سے ردعمل بھی سامنے آیا۔
اے پی کے مطابق کارکنوں نے بدھ کی رات ہانگ کانگ یونیورسٹی میں یادگار کے گرد حفاظتی حصار لگایا۔ اس موقعے پر ڈرلنگ کی آوازیں اور زور دار کھنکھناہٹ سنائی دے رہی تھی جبکہ محافظ بھی گھوم رہے تھے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یونیورسٹی نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ ’کسی بھی فریق نے کیمپس میں اس مجسمے کی نمائش کے لیے یونیورسٹی سے کبھی کوئی منظوری نہیں لی اور یونیورسٹی کو کسی بھی وقت اس سے نمٹنے کے لیے مناسب اقدامات کرنے کا حق حاصل ہے۔‘
ہانگ کانگ یونیورسٹی کی کونسل نے اپنے بیان میں کہا کہ اس نے بدھ کی میٹنگ کے دوران ’یونیورسٹی کے بہترین مفاد کے لیے بیرونی قانونی مشورے اور خطرے کی تشخیص کی بنیاد پر‘ مجسمے کو ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔
’کونسل نے درخواست کی کہ مجسمے کو سٹور میں رکھا جائے اور یونیورسٹی آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں قانونی مشاورت جاری رکھے گی۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اکتوبر میں یونیورسٹی نے اس مجسمے کے سامنے شمعیں روشن کرنے والے منتظمین (ہانگ کانگ میں چین کی محب وطن جمہوری تحریکوں کے حمایتی الائنس) کو آگاہ کیا تھا کہ ’حالیہ خطرے کی تشخیص اور قانونی مشورے‘ کے بعد اس مجسمے کو ہٹانا پڑے گا۔
تنظیم نے کہا تھا کہ وہ اس مجسمے کی مالک نہیں اور ساتھ ہی انہوں نے یونیورسٹی کو کہا تھا کہ وہ اس مجسمے کے خالق سے بات کرے۔
’یونیورسٹی کی کارروائی عجیب اور حیران کن‘
مجسمہ ساز گیلشیوٹ نے اس شرط پر مجسمے کو واپس ڈنمارک لے جانے کی پیشکش کی تھی کہ انہیں قانونی استثنیٰ دیا جائے کہ ہانگ کانگ کے قومی سلامتی کے قانون کے تحت ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا، لیکن یونیورسٹی نے اس حوالے سے کوئی ردعمل نہیں دیا۔
گالشیوٹ نے اے ایف پی کو بتایا کہ یونیورسٹی کی مجسمے کے خلاف کارروائی’عجیب‘ اور ’حیران کن‘ بات ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ واقعی ایک مہنگا مجسمہ ہے۔ اس لیے اگر وہ اسے تباہ کرتے ہیں، تو یقیناً ہم ان پر مقدمہ کریں گے۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔‘
گیلشیوٹ نے کہا کہ انہوں نے مجسمہ واپس لے جانے کی پیشکش کی تھی اور وکلا کی مدد سے یونیورسٹی سے رابطے کی کوشش کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یونیورسٹی حکام نے کبھی بھی ان سے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی انہیں بدھ کی رات ہونے والی کارروائی سے آگاہ کیا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے پوچھنے پر مجسمہ ساز گیلشیوٹ نے بتایاکہ انہیں مجسمے کے متعلق بدھ کے روز سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ سے معلوم ہوا۔
انہوں نے کہا: ’معلوم نہیں کہ اصل میں کیا ہوا لیکن مجھے خدشہ ہے کہ وہ اسے تباہ کر دیں گے۔ یہ میرا مجسمہ ہے اور یہ میری ملکیت ہے۔‘
اس سے قبل انہوں نے یونیورسٹی کو خط لکھ کر اس یادگار کی ملکیت کا دعویٰ کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے یونیورسٹی کو اس سے بھی خبردار کیا ہے کہ اگر مجسمہ ہٹانے کے دوران اسے کوئی نقصان پہنچا تو وہ ہرجانے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔
اے پی کے مطابق ہانگ کانگ کے حکام نے قومی سلامتی کے قانون کے نفاذ کے بعد سیاسی اختلاف رائے کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے۔
یہ قانون شہر کے معاملات میں مداخلت کے لیے علیحدگی، تخریب کاری، دہشت گردی اور غیر ملکی ملی بھگت کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔ اس قانون کو بیجنگ نے 2019 میں کئی ماہ تک حکومت مخالف مظاہروں کے بعد نافذ کیا تھا۔
قومی سلامتی کے اس قانون کے تحت 100 سے زائد جمہوریت کے حامی کارکنوں کو گرفتار کیا ہے۔
’شرم کا ستون‘ دو دہائیوں سے موجود ہے اور یہ ابتدائی طور پر ہانگ کانگ کے وکٹوریہ پارک میں نصب تھا۔ بالآخر اسے طویل مدتی بنیادوں پر ہانگ کانگ یونیورسٹی منتقل کیا گیا۔
ہر سال چار جون کو اب ختم ہوچکی طلبہ یونین کے ارکان تیانانمن قتل عام کی یاد میں اس مجسمے کو دھوتے تھے۔ ہانگ کانگ اور میکاؤ چین کی سرزمین پر واحد جگہ تھی جہاں تیانانمن کریک ڈاؤن کی یادگار دکھانے کی اجازت تھی۔
حکام نے گذشتہ دو سال سے کرونا وائرس پھیلنے کے خدشے کے تحت تیانانمن مجسمے کے سامنے رات کو شمعیں جلانے پر پابندی لگا رکھی ہے۔
گذشتہ سال تیانانمن پر شمعیں جلانے کی تقریب پر ہزاروں افراد نے پولیس کی پابندی کے باوجود گانے گانے اور موم بتیاں جلانے کے لیے پارک میں لگائی گئی رکاوٹیں توڑ دی تھیں، جس پر تقریباً 24 کارکنوں پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔