بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عبدالحمید بلوچ پر مشتمل بنچ نے سوئی سدرن کمپنی کی طرف سے صارفین پر لگائے گئے پی یو جی /سلو میٹر چارجزسے متعلق آئینی درخواست کا فیصلہ سناتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے دیا۔
سلو میٹر چارجز بل کا حصہ تب بنتے ہیں جب کمپنی کو صارف پر شبہ ہو کہ انہوں نے میٹر کی ریڈنگ کو آہستہ کیا ہے تاکہ بل میں کمی واقع ہوسکے، اس صورت میں وہ بل میں ایک اضافی چارج لگا دیتے ہیں۔
اپنے فیصلے میں عدالت کا کہنا تھا کہ یہ چارجز آئین کے آرٹیکل آٹھ، نو اور 25 سے متصادم ہیں۔
کوئٹہ کے کلی دیبہ کے رہائشی سعید احمد کو اس وقت شدید جھٹکا لگا جب انہوں نے سوئی سدرن گیس کمپنی کی طرف سے بھیجے جانے والے بل کو دیکھا۔ بل نہ صرف ان کے گمان سے زیادہ تھا بلکہ ان کے ماہانہ اخراجات پر بھی بھاری پڑ رہا تھا۔
سعید نے بل تو جمع کرا دیا اور انہوں نے سوچا کہ شاید سردی بڑھنے کے باعث گیس کا استعمال زیادہ ہے۔ اس لیے بل زیادہ آرہا ہے۔ لیکن جب اسی طرح متواتر بل آنا شروع ہوئے تو ان کی پریشانی مزید بڑھنے لگی۔
دسمبر کے مہینےکا بل جب آیا تو انہوں نے ایک ہمسائے جو پڑھے لکھے اور ایک دفتر میں ملازمت کرتے تھ، سے پوچھا کہ بل کیوں زیادہ آ رہے ہیں تو انہوں نے بل دیکھ کر سعید کو بتایا کہ گیس کمپنی نے آپ پر سلو میٹر چارجز لگائے ہیں۔
سعید نےحیرت سے پوچھا کہ یہ کیا ہوتا ہے تو انہوں نے بتایا کہ جب آپ کا میٹر کم چلے تو کمپنی سمجھتی ہےکہ اس میں کوئی خرابی ہے اس لیے وہ ایسے صارفین پرسلو میٹر چارجز لگادیتی ہے۔
سعید بل اٹھا کر گیس کمپنی کے کوئٹہ کے سمنگلی روڈ پر واقعہ دفتر بھی گئے۔ وہاں بھی انہیں یہی بتایا گیا کہ یہ چارجز گیس میٹر کم چلنے پر لگایا جاتا ہے۔
جس پر سعید نے کہا کہ سردی ہونے پرتو گیس کا پریشر بھی کم ہوجاتا ہے۔ لیکن دفتر والوں نے انہیں بتایا کہ بس یہ قانون ہے اس لیے اس کو قبول کرنا پڑے گا۔
سلو میٹر چارجز صرف ایک سعید نہیں بلکہ کوئٹہ کے کئی شہریوں کا مسئلہ بنا ہوا ہے، جس پر انہوں نے آواز بلند کرنا شروع کر دی ہے لیکن تاحال اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔
اسی بارے میں سینئر قانون دان سید نذیر آغا ایڈووکیٹ ، فرزانہ خلجی ایڈووکیٹ اور سلطانہ ثروت ایڈووکیٹ کی جانب سے آئینی درخواست نمبر 813/ 2021 دائر کی گئی تھی۔
جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ یہ بلوچستان اور کوئٹہ کے عوام کے ساتھ ناانصافی ہے، جس کو ختم ہونا چاہیے۔
کیس کی سماعت کے دوران سوئی سدرن گیس کمپنی کی طرف سے کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ پیش ہوتے رہے اور کمپنی کا نمائندہ بھی عدالت میں موجود رہتا تھا۔
آج جمعرات کے روز کیس کی سماعت کےدوران چیف جسٹس بلوچستان جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عبدالحمید بلوچ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’سوئی سدرن گیس کمپنی کی طرف سے بلوچستان کے صارفین پر پی یو جی/سلو میٹر چارجزکو کالعدم قرار دیا جا رہا ہے۔‘
عدالت نے ایڈیشنل ڈیپازٹ چارجز سے متعلق قرار دیا کہ ’اگر کسی صارف کو اس سلسلے میں شکایت ہے تو وہ کنزیومر کورٹ سے رجوع کرے۔‘
عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ ’کسی بھی صارف کے میٹر اتارنے سے قبل صارف کو نوٹس جاری کیا جائے۔ اگر صارف کی جانب سے 15دن تک نوٹس کا جواب نہ دیا جائے تو پھر متعلقہ تھانے سے مدد لے کر صارف کی موجودگی میں میٹر اتارا جائے۔‘
عدالت نے پریشر ریگولیشن سٹیشنز( پی آرایس )سے متعلق مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو بھی ہدایات جاری کیں ۔
سماعت کے دوران درخواست گزار سید نذیرآغا ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایاکہ کوئٹہ سے پشین تک ایک سو 60 پریشر ریگولیشن سٹیشنز(پی آر ایس) ہیں۔
جبکہ زیارت تک 72 پی آر ایس اور قلات و مستونگ تک پی آر ایس کی تعداد درجنوں میں ہے جہاں لوگ اپنے علاقوں کو گیس پریشر کی بہتری کے لئے دوسرے صارفین کے گیس سپلائی کو بند کردیتے ہیں۔
عدالت نے کمپنی حکام کو ہدایت کی کہ وہ اس عمل کو روکے اور اگر اس سلسلے میں کمپنی حکام کو مشکلات ہے تو وہ ضلعی انتظامیہ ، پولیس اور لیویز سے اس سلسلے میں مدد لے تاکہ کسی صارف کی حق تلفی نہ ہو۔
سماعت کے دوران سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے ضلع زیارت گیس پریشر سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ زیارت کے چھ ہزار سے زائد صارفین کو گیس کی فراہمی کے لئے کچلاک سے 16 قطر کے پائپ لائن سے گیس کی سپلائی شروع کی گئی۔
لیکن راستے میں آنے والے 70 سے زائد کلیوں میں پریشر ریگولیشن اسٹیشنزو دیگر کے ذریعے زیارت کو گیس پریشر متاثر ہوجاتا ہے اس لئے سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ ضلعی انتظامیہ سے پی آر ایس سینٹرز کے ذریعے گیس پریشر میں کمی اور اس کی بندش کی غیر قانونی اقدام کے خلاف مدد کی استدعا کرتی ہے۔
ایک سال قبل، سوشل میڈیا پر ان چارجز سے متعلق سوئی سدرن گیس کمپنی نے بتایا تھا کہ یہ بل میں کب لگتے ہیں۔
What is PUG and why PUG charges are billed?#SSGC #SaveGas pic.twitter.com/GwCKF46Ams
— SSGC Official (@SSGC_Official) July 16, 2020
عدالت نے اگلی سماعت پر زیارت میں گیس کی فراہمی کو سٹریم لائن کرنے ،پریشر کی بحالی، پی آر ایس اسٹیشنز بند کرنے والوں کے خلاف کارروائی، اس سلسلے میں تحفظ کی فراہمی اور دیگر سے متعلق رپورٹ جمع کرانے اور ڈپٹی کمشنر کو اس سلسلے میں تعاون کرنے کی ہدایات بھی جاری کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گیس اور بجلی کے مسائل سے متعلق دائر آئینی درخواست کی سماعت ووکیشن جج بھی کرے گا۔ عدالت نے آئینی درخواست کی مزید سماعت 13 جنوری تک ملتوی کردی۔
آئینی درخواست دائرکرنے والے نذید آغا ایڈووکیٹ نے فیصلےکے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اسے بڑی کامیابی اور عوام کے مفاد کا فیصلہ قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کیس کی سماعت کو رپورٹ کرنے والے ساتھی صحافی کلیم اللہ شاہ نے بتایا کہ ہم اس کیس کے حوالے سے گزشتہ پانچ ماہ کے دوران پیش ہوتے رہے۔
کلیم شاہ نے ’انڈپینڈنٹ اردو‘ کوبتایا کہ سلو میٹر چارجز بلوچستان کے صارفین پر سال 2020 میں لاگو کیےگئے۔ جس میں کمپنی نے یہ معیار رکھا کہ جو صارفین 100 کیوبک میٹر سے کم گیس استعمال کرے گا اس پر یہ چارج لگایا جائےگا۔
انہوں نے بتایا کہ سماعت کے دوران کمپنی حکام نے بتایا کہ سلو میٹر چارجز سردی کے علاوہ گرمیوں میں وصول کیے جاتے رہے ہیں۔ جس میں گرمیوں کے دوران 800 اور سردیوں میں 2700 چارج کیے جاتے تھے۔
کلیم شاہ نے بتایا کہ کمپنی کے اعداد وشمار کے مطابق بلوچستان میں گیس صارفین کی تعداد تین لاکھ دس ہزار ہے۔ یہ چارجز بلاتفریق سب سے وصول کیے جاتے رہےہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب یہ درخواست دائر ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ عدالت کے طلب کرنے کے بعد سوئی سدرن گیس کمپنی کے اعلیٰ حکام پیش ہونے سے گریز کرتے رہے۔
کلیم شاہ کے مطابق: ’سماعت کے دوران عدالت میں نذیرآغا ایڈووکیٹ نے کراچی اور اسلام آباد کے بل پیش کیے۔ جس میں کوئی چارج نہیں لگایا گیا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ منگل کے روز ہونے والے سماعت میں عدالت نے سوئی سدرن گیس کمپنی کے حکام سے کہا کہ وہ سلو میٹر چارجز کے حوالےسے قانون پیش کریں اگر پیش نہ کیا تو ہم فیصلہ سنادیں گے۔