چین نے سنکیانگ کے علاقے میں کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے مبینہ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف جنگ کے نام پر ایغوروں اور دیگر مسلمان اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے چن کوانگو کو ہٹا دیا۔
چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا نے ہفتے کو مزید تفصیلات دیے بغیر رپورٹ کیا کہ 2016 سے اس عہدے پر فائز چن کو دوسری ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں جبکہ 2017 سے ساحلی اقتصادی پاور ہاؤس گوانگ ڈونگ صوبے کے گورنر ما زنگروئی نے سنکیانگ میں ان کی جگہ لی ہے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے اقوام متحدہ کے ریسرچرز اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے حوالے سے بتایا کہ سنکیانگ کے کیمپوں میں اندازاً 10 لاکھ سے زائد مسلمان زیر حراست ہیں۔
چین مسلمان اقلیت سے بدسلوکی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ان کیمپوں کو ’انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے پیشہ ورانہ مراکز‘ قرار دیتا ہے اور 2019 کے آخر میں چین نے کہا تھا کہ کیمپوں میں موجود تمام لوگ ’گریجویٹ‘ ہو چکے ہیں۔
66 سالہ چن چین کے پولٹ بورو (کمیونسٹ پارٹی کی مجلس عاملہ) کے رکن ہیں اور انہیں بڑے پیمانے پر سنکیانگ میں سکیورٹی کریک ڈاؤن کا ذمہ دار اعلیٰ عہدے دار سمجھا جاتا ہے۔ ان پر گذشتہ سال امریکہ نے پابندی عائد کردی تھی۔
جمعرات کو امریکی صدر جو بائیڈن نے جبری مشقت کے خدشات کے پیش نظر سنکیانگ سے درآمدات پر پابندی کے قانون پر دستخط کیے تھے، جس کی ناراض چینی قیادت نے مذمت کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دی انڈپینڈنٹ کے مطابق دسمبر کے اوائل میں وائٹ ہاؤس نے انسانی حقوق کے حوالے سے چین کی حکومت پر دباؤ بڑھاتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ 2022 کے سرمائی اولمپکس کے لیے کوئی سرکاری وفد نہیں بھیجے گی۔
اس سال کے اوائل میں وائٹ ہاؤس نے سنکیانگ میں تیار ہونے والی بعض اشیا پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے متعلق دفتر خارجہ نے الزام لگایا ہے کہ یہ سامان جبری مشقت کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے۔
بعد ازاں امریکی قانون سازوں نے 16 دسمبر کو اویغور اقلیت کے ساتھ چین کے سلوک کی مذمت کے طور پر بیجنگ پر نئی تجارتی پابندیاں عائد کیے جانے کی منظوری دی تھی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق امریکی انٹیلی جنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ چین نے پورے سنکیانگ میں ایک ہائی ٹیک نگرانی کا نظام قائم کر رکھا ہے، جو بائیو میٹرک چہرے کی شناخت کا استعمال کرتا ہے اور اس نے اویغوروں کو دبانے کی منظم کوشش کے طور پر 12 سے 65 سال کی عمر کے تمام رہائشیوں سے ڈی این اے نمونے اکٹھے کیے ہیں۔