پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ افغان خواتین پر طالبان کی طرف سے عائد کی جانے والی نئی پابندیوں سے ’انتہا پسند‘ اور ’دقیانوسی‘ سوچ کی عکاسی ہوتی ہے جو پاکستان کے لیے ’خطرناک‘ ہے۔
افغان طالبان نے اتوار کو ایک نیا ہدایت نامہ جاری کیا تھا جس کے مطابق مختصر فاصلے کے علاوہ کسی اور سفر کی خواہشمند خواتین کو اس وقت تک ٹرانسپورٹ کی پیشکش نہ کی جائے جب تک کہ ان کے ساتھ کوئی قریبی مرد رشتہ دار نہ ہو۔
وزارت امربالمعروف و نہی عن المنکر کی ہدایت میں تمام گاڑیوں کے مالکان سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ صرف با حجاب خواتین کو ہی سواری کی پیشکش کریں۔
اسلام آباد میں پیر کو ایک تقریب سے خطاب میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے دائیں بائیں دو انتہا پسند حکومتیں قائم ہو چکی ہیں۔‘
وہ مغربی ہمسایہ ملک افغانستان جہاں طالبان اگست میں اقتدار میں آئے اور مشرق میں بھارت کی طرف اشارہ کر رہے تھے جہاں نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت قائم ہے۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’ایک طرف افغانستان ہے جہاں طالبان اقتدار میں آ چکے ہیں۔ ہم افغانستان کے عوام کی پوری مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم کہنا چاہتے کہ وہاں خواتین اکیلی سفر نہیں کر سکتیں یا سکول اور کالج نہیں جا سکتیں، اس قسم کی دقیانوسی سوچ پاکستان کے لیے خطرناک ہے۔‘
وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ ’اس طرح یہاں (مشرق میں) ہندو انتہا پسندی پھیل رہی ہے۔ ریاست پاکستان کی سب سے بڑی جنگ ان دو طرح کی انتہا پسندانہ سوچ کے خلاف ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغانستان کی وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترجمان صادق عاکف مہاجر نے اتوار کو اے ایف پی کو بتایا تھا کہ ’45 میل سے زیادہ طویل سفر کرنے والی خواتین کے ساتھ خاندان کا کوئی قریبی فرد نہ ہو تو انہیں سواری کی پیشکش نہ کی جائے۔‘
انہوں نے وضاحت کی کہ خاندان کا یہ رکن قریبی مرد رشتہ دار ہونا چاہیے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے اس ہدایت نامے میں وزارت کی جانب سے افغانستان کے ٹیلی ویژن چینلز سے کہا گیا ہے کہ وہ ڈرامے اور پرگرامز جن میں خواتین ہیں انہیں نشر نہ کیا کریں۔ ٹیلی ویژن پر کام کرنے والی خاتون صحافیوں سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ پروگرام کے دوران حجاب لیں۔
صادق عاکف مہاجر نے اتوار کو کہا تھا کہ ٹرانسپورٹ میں سوار ہونے والی خواتین کے لیے بھی حجاب پہننا ضروری ہو گا۔ وزارت کے ہدایت نامے میں لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی گاڑیوں میں موسیقی بند کر دیں۔
واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں افغان طالبان کے سربراہ ہبت اللہ آخوندزادہ کی طرف سے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا تھا جس میں حکومت کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ خواتین کے حقوق کو عملی شکل دیں۔ حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ انہیں ’ملکیت‘ نہ سمجھا جائے اور شادی کے لیے ان کی رضامندی ضروری ہونی چاہیے۔
تاہم اس حکم نامے میں خواتین کی تعلیم اور گھر سے باہر جا کر کام کرنے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔