وائٹ ہاؤس نے خبردار کیا ہے کہ اگر روس یوکرین پر حملہ کرتا ہے تو امریکہ مشرقی یورپ میں اپنی فوج کی موجودگی بڑھا دے گا اور روس کو اس کی جانب سے ’شدید اقتصادی نقصان‘ کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پیر کو صحافیوں سے ایک پریس کال میں انتظامیہ کے سینیئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ اگر روس یوکرین پر حملہ کرتا ہے تو نیٹو کے مشرقی اتحادی اضافی فوجیوں اور صلاحیتوں کی درخواست کریں گے اور امریکہ فراہم کرے گا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس بھی ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ اگر روس یوکرین سے پیچھے نہیں ہٹتا، اس کی خودمختاری اور آزادی کے لیے خطرہ بنتا ہے تو ہم اور ہمارے اتحادی کارروائی کے لیے تیار ہوں گے۔‘
وائٹ ہاؤس کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب آج یعنی منگل کو امریکی صدر جو بائیڈن روسی صدر ولادی میر پوتن کے درمیان ویڈیو کال متوقع ہے۔
روئٹرز کے مطابق امریکی انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ صدر بائیڈن صدر پوتن کو اس کال کے دوران خبردار کریں گے کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو اسے سنگین اقتصادی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہونے جا رہے ہیں جب یوکرین کی سرحد پر دسیوں ہزار فوجی جمع ہونے کے بعد امریکہ روس کو یوکرین کے خلاف فوجی کارروائی شروع کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
پوتن کے ساتھ اپنی ورچوئل ملاقات سے قبل بائیڈن نے پیر کو فرانس، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ کے رہنماؤں سے بھی بات کی، جس کے بعد مغربی طاقتوں نے اس ’عزم‘ کا اظہار کیا کہ یوکرین کی خودمختاری کا احترام کیا جائے گا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک سینیئر امریکی عہدیدار نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکی صدر اپنے یوکرینی ہم منصب ولادو میر زیلنسکی کو بھی فوری طور پر پوتن کے ساتھ اپنی بات چیت کی تفصیلات سے آگاہ کریں گے، جو منگل کو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ہو رہی ہے، کیونکہ دسیوں ہزار روسی فوجی یوکرین کی سرحد کے قریب تعینات ہیں۔
مذکورہ عہدیدار نے کہا کہ وائٹ ہاؤس کو نہیں معلوم کہ آیا پوتن نے یوکرین کے خلاف اپنی فوجی دستوں کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے یا نہیں، تاہم وہ براہ راست امریکی مداخلت کی دھمکی دینے سے باز رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عہدیدار نے کہا کہ اگر روس نے حملہ کیا تو امریکہ اور یورپی اتحادی سخت ’جوابی معاشی اقدامات‘ کرسکتے ہیں جو روسی معیشت کو اہم اور شدید اقتصادی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’اس کے علاوہ صدر بائیڈن یہ واضح کریں گے کہ اگر پوتن پیش قدمی کرتے ہیں تو مشرقی خطے کے اتحادیوں کی طرف سے اضافی افواج، دفاعی صلاحیتوں اور مشقوں کے لیے موجود درخواست پر امریکہ کی طرف سے مثبت جواب ملے گا۔‘
وائٹ ہاؤس نے یورپی رہنماؤں کے ساتھ بائیڈن کی بات چیت کے بعد ایک بیان میں کہا کہ مکمل بات چیت میں روس سے کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ ڈونباس میں تنازع کو حل کرنے کا واحد راستہ سفارت کاری ہے۔
یوکرین کے مطابق روس کی سرحد کے قریب ایک لاکھ کے قریب فوجی موجود ہیں۔
دوسری جانب روس کسی بھی جنگی ارادے کی تردید کرتا ہے اور مغرب پر اشتعال انگیزی کا الزام لگاتا ہے، خاص طور پر بحیرہ اسود میں فوجی مشقوں کے ساتھ، جسے وہ اپنے اثر و رسوخ کے ایک حصے کے طور پر دیکھتا ہے۔
پوتن مغرب سے یہ وعدہ چاہتے ہیں کہ یوکرین نیٹو کا حصہ نہیں بنے گا، جو سابق سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا گیا ٹرانس اٹلانٹک اتحاد ہے۔
پینٹاگون نے واضح کیا ہے کہ وہ روسی فوجیوں کی تعداد میں اضافے کو ایک سنگین خطرے کے طور پر لے رہا ہے۔
روس کے صدر کے دفتر نے پیر کو کہا تھا کہ ماسکو بائیڈن- پوتن کال سے کچھ زیادہ توقعات نہیں رکھتا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کے مطابق: ’امریکہ اب بھی سمجھتا ہے کہ روس اور مغرب کے درمیان یوکرین کی روس نواز علیحدگی پسندوں کے ساتھ جنگ بندی پر عمل درآمد سے متعلق منسلک معاہدے ممکن تھے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس مسئلے کو سفارتی طور پر حل کرنے کے لیے ہمارے سامنے ایک موقع، ایک آپشن موجود ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر روس اس میں دلچسپی ظاہر نہیں کرتا تو امریکہ ’بھاری اثرات والے اقتصادی اقدامات کو لاگو کرنے کے لیے تیار ہے، جو ہم نے ماضی میں استعمال کرنے سے گریز کیا ہے۔‘