یوکرین پر چڑھائی کی گئی تو امریکہ ’فیصلہ کن‘ جواب دے گا: جو بائیڈن

یوکرین کی سرحد پر ساتھ روس کی جانب سے فوجیوں کی تعداد میں اضافے پر امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے یوکرینی ہم نصب کو یقین دلایا ہے کہ اگر روس یوکرین پر چڑھائی کرتا ہے تو امریکہ اور اس کے اتحادی ’فیصلہ کن‘ جواب دیں گے۔

امریکی صدر جو بائیڈن (دائیں) اور یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی  (بائیں)۔ (فائل تصویر: اے ایف پی )

یوکرین کی سرحد پر ساتھ روس کی جانب سے فوجیوں کی تعداد میں اضافے پر امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اتوار کو یوکرینی ہم نصب کو یقین دلایا ہے کہ اگر روس یوکرین پر چڑھائی کرتا ہے تو امریکہ اور اس کے اتحادی ’فیصلہ کن‘ جواب دیں گے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق جو بائیڈن اور یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ اس وقت ہوا ہے جب امریکہ اور مغربی اتحادی اس بحران کو ختم کرنے کی کوشش کے لیے متعدد سفارتی ملاقاتوں کے لیے تیار ہیں جس کے بارے میں روس کا کہنا ہے کہ اس سے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات ٹوٹ سکتے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جین ساکی نے اس کال کے بعد ایک بیان میں کہا کہ صدر بائیڈن نے واضح کیا کہ اگر روس یوکرین پر مزید چڑھائی کرتا ہے تو امریکہ اور اس کے اتحادی اور شراکت دار فیصلہ کن جواب دیں گے۔

ترجمان وائٹ ہاؤس ساکی نے مزید کہا کہ بائیڈن نے ’آپ کے بغیر آپ کے بارے میں کچھ نہیں‘ کے اصول کے ساتھ اپنے عزم کو اجاگر کیا کہ وہ ایسی پالیسی پر بات چیت نہیں کریں گے جو یورپ پر اس کے اتحادیوں کی رائے کے بغیر اثر انداز ہو۔

اگر روس یوکرین کی حدود میں آگے کی جانب بڑھتا ہے تو امریکی صدر جو بائیڈن نے ماسکو پر اس کی معیشت کو جھنجھوڑ دینے والی پابندیاں لگانے کی بات کی ہے، لیکن انہوں نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ امریکی فوجی کارروائی زیر غور نہیں ہے۔

کریملن نے مطالبہ کیا ہے کہ نیٹو کی مزید توسیع میں یوکرین اور دیگر سابق سوویت ممالک کو شامل نہ کیا جائے اور فوجی اتحاد خطے میں موجود ممالک سے جارحانہ ہتھیار ہٹائے۔

وائٹ ہاؤس نے نیٹو کے متعلق روس کے مطالبات کو ناممکنات قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ نیٹو اتحاد کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ رکنیت ایسے کسی بھی ملک کے لیے کھلی ہے جو شرائط پر پورا اترتا ہو اور کسی بھی بیرونی ملک کے پاس رکنیت کو ویٹو کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

اگرچہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ یوکرین کو جلد ہی اس اتحاد میں مدعو کیا جائے گا لیکن امریکہ اور اس کے اتحادی اسے مسترد نہیں کریں گے۔

یوکرین کے صدر زیلنسکی نے جوبائیڈن کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے کے بعد ایک ٹوئٹر پوسٹ میں کہا کہ ’یورپ میں امن قائم رکھنے، جارحیت میں مزید اضافے کو روکنے اور اصلاحات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔‘ انہوں نے کہا کہ ہم امریکہ کی جانب سے غیرمتزلزل حمایت کو سراہتے ہیں۔

روس صدر ولادی میر پوتن کو کشیدگی کم کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے امریکی کوششوں میں بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔

اعلیٰ امریکی اور روسی حکام 9 سے 10 جنوری کو جنیوا میں ملاقات کریں گے، جس کے دوران صورت حال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ ان مذاکرات کے بعد نیٹو-روس کونسل اور یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم میں ملاقاتیں ہوں گی۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو ولادی میرپوتن کے ساتھ تقریباً ایک گھنٹہ گفتگو کی تھی۔ امریکی صدر نے اگلے روز صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے اپنے ہم منصب کو خبردار کیا کہ روس، جس نے سرحد کے قریب تقریباً ایک لاکھ فوجی جمع کیے ہیں، نے اگر یوکرین کے خلاف مزید اقدامات کیے تو ان کی معیشت کو ’بھاری قیمت‘ ادا کرنی پڑے گی۔

بائیڈن نے جمعے کو کہا کہ میں یہاں عوام کے سامنے بات چیت نہیں کروں گا لیکن ہم نے واضح کیا کہ وہ یوکرین پر آگے نہیں بڑھ سکتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بائیڈن نے کہا کہ انہوں نے پوتن کو بتایا کہ ماسکو کے لیے ضروری ہے کہ وہ بحران کو کم کرنے کے لیے ہونے والی ان ملاقاتوں سے پہلے اقدامات کرے۔

روسی صدر کے خارجہ امور کے مشیر نے گذشتہ ہفتے دونوں صدور کی گفتگو کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ جوبائیدن کی جانب سے پابندیوں کے نفاذ سے ’ممالک کے درمیان تعلقات مکمل طور پر ٹوٹ سکتے ہیں اور روس اور مغرب کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچے گا۔‘

امریکی انٹیلی جنس کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ روس نے 2022 کے اوائل میں ممکنہ حملے کی تیاریاں کی ہیں، لیکن وائٹ ہاؤس کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ولادی میر پوتن نے پہلے سے فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا تھا۔

اس کے باوجود بائیڈن نے کہا کہ وہ آئندہ مذاکرات کے لیے پرامید ہیں۔ وائٹ ہاؤس حکام کا کہنا ہے کہ وہ مغربی اتحادیوں سے قریبی مشاورت کریں گے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انہوں نے جمعے کو کہا کہ ’میں ہمیشہ توقع کرتا ہوں کہ اگر آپ بات چیت کریں گے تو آپ آگے بڑھیں گے لیکن ہم دیکھیں گے۔‘

2014 میں روسی فوجیوں نے بحیرہ اسود کے جزیرہ نما کریمیا میں دخل اندازی کی اور یوکرین کے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ روس کا کریمیا پر قبضہ بین الاقوامی سطح پر صدر باراک اوباما کے لیے تاریک لمحات میں سے ایک تھا۔

سابق امریکی صدر جارج ڈبلیوبش کے دور حکومت کے آخر میں 2008 میں امریکہ اور روس کے تعلقات کو اس وقت شدید نقصان پہنچا تھا جب ماسکو نے پڑوسی ملک جارجیا پر حملہ کیا تھا۔

ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین ڈی کیلیف کے نمائندہ ایڈم شیف نے اتوار کو کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ پوتن یوکرین پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ’روس کو ایسی پابندیوں کے علاوہ کوئی نہیں روک سکتا جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھی ہوں۔‘

ایڈم شیف نے سی بی ایس پر ’فیس دی نیشن‘ کو بتایا کہ روس کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اس معاملے میں متحد ہیں۔ ’میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ سوچ بھی ایک مضبوط رکاوٹ ہے کہ اگر وہ حملہ کرتے ہیں تو یہ (نیٹو) کو روس سے دور دھکیلنے کی بجائے اس کے مزید قریب لے آئے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا