چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت ملک بھر میں مجوزہ منصوبوں میں سے آدھے سے زیادہ منصوبے ’ان پائپ لائن‘ ہیں یعنی ان پر کام کا آغاز مستقبل میں کیا جائے گا۔
تعمیر ہو کر فعال ہونے والے سی پیک منصوبوں کی اکثریت 2019 تک مکمل ہوئی اور گذشتہ دو سالوں میں زیر تعمیر منصوبے تاخیر کا شکار ہوئے۔
ان منصوبوں کی تاخیر کی تصدیق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی و ترقی کے ایک حالیہ اجلاس میں بھی ہوئی۔
کمیٹی نے 16 دسمبر کو اجلاس میں سی پیک منصوبوں پر سست پیش رفت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کمیٹی کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ سی پیک منصوبوں پر کام کی رفتار سے چین مطمئن نہیں اور چینی سفیر نے انہیں شکایت کی ہے کہ گذشتہ تین سالوں میں ان منصوبوں پر کوئی کام نہیں ہوا، جس سے سی پیک تباہ ہوگیا ہے۔
اجلاس کے دوران وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سی پیک امور خالد منصور نے بھی کہا کہ منصوبوں پر کام کرنے والی چین کی مختلف کمپنیاں حکومتی اداروں کے کام کی رفتار سے مطمئن نہیں۔
سی پیک اتھارٹی کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق چین اور پاکستان کے اشتراک سے 17 ہزار 45 میگاواٹ بجلی بنانے والے منصوبے، سڑکوں اور ریل کا انفراسٹکچر، پاکستان سے چین تک فائبر آپٹک لائن، گوادر کو سمارٹ سٹی بنانے کے ساتھ گوادر پورٹ کی تجارتی طور پر ترقی، چار مختلف شہروں میں اربن ماس ٹرانزٹ منصوبوں کے ساتھ ملک بھر میں نو سپیشل اکنامک زونز بنانے کے منصوبے شامل ہیں۔
توانائی کے شعبے میں 17 ہزار 45 میگاواٹ بجلی بنانے والے 21 مختلف منصوبوں میں سے تاحال پانچ ہزار 960 میگاواٹ کے 10 منصوبے مکمل ہوسکے ہیں جبکہ تین ہزار 870 میگاواٹ کے چھ منصوبے تاحال زیر تعمیر ہیں۔
اس کے علاوہ دو ہزار 870 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے پانچ منصوبوں کو تعمیر کرنے کی تجویز دی گئی ہے مگر تاحال ان پر کوئی کام شروع نہیں ہو سکا ہے۔
مکمل ہونے والے منصوبوں کی اکثریت 2017 اور 2018 اور 2019 میں مکمل ہوئی۔ گذشتہ دو سالوں کے دوران کم ہی منصوبے تکمیل کو پہنچے۔ مکمل ہوکر بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں میں ساہیوال میں 13 سو 20 میگاواٹ پراجیکٹ 2017 میں، قاسم پورٹ کراچی 2018 میں اور حب، بلوچستان میں کوئلے پر چلنے والا منصوبہ 2019 میں مکمل ہوا۔
اس کے علاوہ 660 میگاواٹ کا تھر کول پاور پلانٹ 2019 میں، 1000 میگاواٹ والا قائداعظم سولر پارک منصوبہ 2016 میں، سندھ کے ضلع ٹھٹھہ کے مختلف شہروں میں واقع منصوبے جن میں گھارو میں 50 میگاواٹ کا ہائیڈرو چائنہ داؤد سولر پارک 2016 میں، جھمپیر میں 100 میگاواٹ کا یو اے پی ونڈ فارم 2017 میں اور 50 میگاواٹ کا سچل ونڈ فارم 2017، گھارو کا ایک اور 100 میگاواٹ کا منصوبہ 2018 اور اس کے علاوہ سندھ کے شہر مٹیاری سے لاہور تک 900 کلومیٹر تک بچھی لائن والا 4000 میگاواٹ واحد منصوبہ ہے جو ستمبر 2021 میں مکمل ہونے بعد کام شروع کیا۔
3 تین ہزار 870 میگاواٹ کے چھ منصوبے ایسے ہیں جو تاحال مکمل نہیں ہو سکے۔ ان میں 13 سو 20 میگاواٹ کا تھرکول بلاک ون منصوبہ شامل ہے، جس پر 66 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔
330 میگاواٹ کے تھرکول بلاک ٹو 73 فیصد، 330 کے حبکو کناری ہائیڈرو پراجیکٹ کا کام 51 فیصد، 884 خیبرپختونخوا میں سوکی کناری ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر 70 فیصد، کیروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ،پاکستان کے زیر انتظام کشمیر منصوبے کے کام کا 90 فیصد اور گوادر میں کوئلے پر چلنے والے 300 میگاواٹ بجلی گھر کا کام بھی تاحال مکمل نہ ہوسکا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرانسپورٹ انفراسٹرکٹچر کے 24 منصوبوں میں سے صرف پانچ مکمل ہوکر فعال ہوئے جبکہ چھ پر کام جاری ہے۔ اس کے علاوہ آٹھ منصوبے 'ان پائپ لائن' ہیں۔
کوئٹہ کے ماس ٹرانسزٹ اور کراچی سرکلر ریلوے سمیت چھ منصوبے ’لانگ ٹرم‘ ہیں، جن پر مستقبل میں کام شروع ہو گا۔
سی پیک کے تحت سماجی اور معاشی ترقی کے 27 منصوبوں میں سے صرف پانچ منصوبے مکمل ہو سکے جن میں ویکسین سٹوریج اور ٹرانسپورٹیشن کے آلات کی فراہمی اور ووکیشنل ٹریننگ شمال ہیں۔
گوادر شہر کے لیے ڈی سیلینیشن پلانٹ، پاکستان، چین جوائنٹ زرعی لیبارٹری، اعلیٰ تعلیم کے لیے سمارٹ کلاس روم کے منصوبوں سمیت 11 مختلف منصوبے تکمیل کے مراحل سے گزر رہے ہیں جبکہ 10 ’ان پائپ لائن‘ منصوبے ہیں۔
گوادر کے لیے منصوبے
سی پیک اتھارٹی کی ویب سائٹ کے مطابق گوادر کے لیے مختص کُل 14 منصوبوں میں سے پورٹ اور فری زون کے قیام کے منصوبے، گوادر سمارٹ سٹی ماسٹر پلان اور پاک – چائنہ ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹیٹیوٹ گوادر سمیت صرف تین منصوبے مکمل ہوکر فعال ہوئے ہیں۔
گوادر میں نئے ایئرپورٹ، ہسپتال اور ایسٹ بے ایکسپریس وے سمیت سات منصوبے زیر تعمیر ہیں اور چار منصوبے 'ان پائپ لائن' ہیں۔
سپیشل اکنامک زون کے منصوبے
ملک بھر کے مختلف علاقوں میں مجوزہ نو سپیشل اکنامک زونز میں سے ایک بھی مکمل نہ ہو سکا۔ان نو منصوبوں میں چار پر تعمیرات جاری ہیں جبکہ پانچ ’ان پائپ لائن‘ ہیں۔
زیر تعمیر سپیشل زون میں خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں موٹروے ایم ون پر واقع تقریباً 22 ارب روپے سے بننے والے ’رشکئی سپیشل اکنامک زون‘، سندھ کے ضلع ٹھٹہ کے دھابیجی شہر میں 1530 ایکڑ پر پھیلا 'دھابیجی سپیشل اکنامک زون'، ایم تھری موٹر وے پر فیصل آباد کے انڈسٹریل زون کے نزدیک 3217 ایکڑ پر محیط 'علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی' اور بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے متعصل پشین ضلع میں 1000 ایکڑ پر مجوزہ 'بوستان سپیشل اکنامک زون' تکمیل کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔
اسلام آباد میں مجوزہ آئی سی ٹی ماڈل انڈسٹریل زون، کراچی کے پورٹ قاسم کے نزدیک پاکستان سٹیل مل کی زمیں پر انڈسٹریل پارک، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں میروپر انڈسٹریل زون، خیبرپختواخوا کے مہمند ایجنسی میں تجویز کردہ مہمند ماربل سٹی اور گلت بلتستان میں موکپون داس سپیشل اکنامک زون ابھی تک 'ان پائپ لائن' ہیں۔
ابتدائی منصوبے کب تک مکمل ہونے تھے؟
وفاقی وزارت منصوبہ بندی ترقی اور خصوصی اقدامات کی 2017 میں جاری کی گئی 'سی پیک کا طویل مدتی منصوبہ 2017-2030' رپورٹ میں کہا گیا کہ 2025 تک سی پیک کے تحت ابتدائی تعمیراتی کام مکمل ہوجائے گا۔
تمام صنعتیں بھی اسی سال مکمل ہوجائیں گی۔ اس کے علاوہ سی پیک روٹ کے ساتھ رہنے والے لوگوں کا روزگار بہت بہتر ہوجائے گا۔
سی پیک منصوبوں میں تاخیر کی وجہ؟
سی پیک منصوبوں کی تاخیر کے متعلق سرکاری موقف جاننے کے لیے جب انڈپینڈنٹ اردو نے سی پیک اتھارٹی کے اسلام آباد آفس سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ اتھارٹی میں سے کوئی بھی سی پیک پر گفتگو کا مجاز نہیں لہٰذا وفاقی وزارت منصوبہ بندی ترقی اور خصوصی اقدامات سے رجوع کیا جائے۔
وفاقی وزارت منصوبہ بندی ترقی اور خصوصی اقدامات کی ترجمان سے متعدد بار رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا۔
چین اور پاکستان کے مابین تعلقات پر کام کرنے والی تنظیم 'پاکستان کونسل آن چائنہ' کے ڈائریکٹر اور سی پیک پر گہری نظر رکھنے والے ہمایوں خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو کرونا (کورونا)وبا کی وجہ سے لاک ڈاؤن کو منصوبوں کی تاخیر کا سب سے بڑا ذمہ دار قرار دیا۔
’لاک ڈاؤن کے باعث چین سے ختلف منصوبوں کے لیے درکار سامان آنے میں دیر لگی۔ بڑے عرصے تک پاکستان سے چین جانے والوں کو 28 دن کا قرنطینہ لازمی تھا۔ اس لیے بھی مختلف کمپنیوں کو دیر لگی۔‘
ہمایوں خان کے مطابق اس کے علاوہ مختلف منصوبوں کے لیے منتخب کی گئی زمین خریدنے کے تنازعات بھی تاخیر کا سبب بنے۔
’کروٹ ہائیڈرو پراجیکٹ جو پنجاب اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بٹا ہوا۔ اس منصوبے کے لیے درکار زمین کی قیمت پنجاب میں کچھ اور کشمیر میں کچھ مانگی جارہی تھی، جس پر تعمیراتی کمپنی راضی نہیں تھی۔ اس منصوبے کے لیے زمین خریدنے میں ہی کئی سال لگ گئے۔ مگر اب وہ منصوبہ تقریباً تیار ہے'۔
انہوں نے ایک اور مثال دی کہ پنجاب میں کچھ منصوبوں کے لیے جو زمین درکار تھی ان میں سے 700 ایکڑ محکمہ جنگلات پنجاب کی ملکیت تھی جو قانوناً کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں ہو سکتی تھی لہٰذا اس کے لیے قانون سازی کرنا پڑی۔‘
ہمایوں خان کے مطابق زیادہ تر توجہ بڑے منصوبوں پر ہونے کے باعث درمیانے اور چھوٹے منصوبے شروع ہی نہ ہوسکے۔
’مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ سی پیک مکمل طور پر تاخیر کا شکار ہوگیا ہے۔ کئی منصوبے تقریباً مکمل ہوچکے ہیں۔ جو جلد ہی فعال ہوجائیں گے۔‘