جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے جمعرات کو ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ میں کسی خاتون جج کو تعینات کرنے کی سفارش کر دی۔
کمیشن نے جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ تعیناتی کا معاملہ حتمی منظوری کے لیے پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری کو بھیج دیا ہے۔
جمعرات کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوا جس میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس سردار طارق، جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس ریٹائرڈ سرمدجلال عثمانی، وزیر قانون فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل خالد جاوید نے شرکت کی۔
اجلاس میں لاہور ہائی کورٹ سے سنیارٹی میں چوتھے نمبر پر جسٹس عائشہ ملک کی بطور سپریم کورٹ جج تعیناتی پر غور کیا گیا۔
گذشتہ اجلاس میں معاملہ چار، چار ووٹ سے ٹائی ہو گیا تھا جس کے وجہ سے حتمی فیصلہ نہ ہو سکا۔
گذشتہ اجلاس میں جسٹس قاضی فائز عیسی بیرون ملک نجی دورے کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکے تھے۔ ذرائع کے مطابق پانچ اراکین نے جسٹس عائشہ کے حق میں جبکہ چار نے مخالفت میں رائے دی۔
گذشتہ اجلاس میں بطور رکن ریٹائرڈ جج کی نشست پر جسٹس (ر) دوست محمد تھے جنہوں نے جسٹس عائشہ کے نام کی مخالفت کی تھی۔
آج کے اجلاس میں جسٹس (ر) سرمد جلال عثمانی تھے جنہوں نے جسٹس عائشہ کےحق میں ووٹ دیا۔
حق میں ووٹ کرنے والوں میں چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال، اٹارنی جنرل خالد جاوید اور وزیر قانون فروغ نسیم شامل تھے جبکہ مخالفت میں جسٹس سردارطارق، جسٹس مقبول باقر، جسٹس قاضی فائز عیسی اور پاکستان بار کے نمائندے اختر حسین نے ووٹ دیے۔
واضح رہے کہ پاکستان بار کے نمائندے اختر حسین نے پہلے اجلاس میں اور آج بھی نامزدگی کی مخالفت کی۔
سپریم کورٹ میں مقررہ 17 ججز میں سے جسٹس مشیر عالم کی 17 اگست کو ریٹائرمنٹ کے بعد خالی ہونے والی نشست پر جسٹس عائشہ اے ملک کی نامزدگی ہوئی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے جسٹس عائشہ اے ملک کا نام تجویز کیا تھا، جس پر جسٹس عائشہ نے بھی رضا مندی کا تحریری طور پر اظہار کیا۔
گذشتہ سال 10 ستمبر کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں منعقد ہونے والے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تقرری کے معاملے پر غور ہوا اور یہ معاملہ چار، چار سے ٹائی ہوا تھا۔
جسٹس عائشہ ملک بطور جج
بطور جج عائشہ اے ملک اب تک کئی اہم مقدمات کے فیصلے سنا چکی ہیں۔ جیسا کہ خواتین کا کنوارہ پن جانچنے کے لیے ’ٹو فنگر ٹیسٹ‘ کا مقدمہ، جس میں انہوں نے اسے نامناسب اور خواتین کے لیے تکلیف دہ مرحلہ قرار دے کر ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔
اسی طرح محکمہ انسداد دہشت گردی میں جب خواتین کی تعیناتی سے معذرت کی گئی اور پولیس حکام نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں خواتین کا حصہ لینا ان کے لیے مشکل ہے تو جسٹس عائشہ اے ملک نے اس کیس میں خواتین کو بھرتی کرکے دفتری امور پر تعینات کرنے کا حکم سنایا اور قرار دیا کہ صنفی امتیاز پر خواتین کو نوکریوں سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے علاوہ ملک کے بڑے مقدمات جیسے پی ٹی آئی رہنما کی درخواست پر شوگر ملز جنوبی پنجاب کے کاٹن بیلٹ میں منتقل کرنے سے روکنے کا حکم، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی نیب کیس میں ضمانت بعد از گرفتاری منظور ہونے کے بعد دونوں ججز نے اختلافی فیصلہ دیا تو اس لارجر بینچ میں جسٹس عائشہ اے ملک بھی شامل تھیں، جس نے شہباز شریف کی چند ماہ پہلے ضمانت منظور کرکے رہائی کا حکم سنایا تھا۔
تعلیمی قابلیت اور بطور قانون دان تجربہ
لاہور ہائی کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق 1966 میں پیدا ہونے والی جسٹس عائشہ اے ملک نے اپنی بنیادی تعلیم پیرس اور نیویارک سے حاصل کی اور کراچی گرامر سکول، کراچی سے سینیئر کیمبرج کیا۔
اس کے بعد انہوں نے لندن میں فرانسس ہالینڈ سکول فار گرلز سے اے لیول کیا، گورنمنٹ کالج آف کامرس اینڈ اکنامکس کراچی سے بی کام اور لاہور کے پاکستان کالج آف لا سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔
عائشہ اے ملک ہارورڈ لا سکول، کیمبرج، میساچوسٹس، امریکہ سے ایل ایل ایم کرنے چلی گئیں جہاں انہیں شاندار قابلیت کے لیے لندن ایچ گیمن فیلو 99-1998 کا نام دیا گیا۔
اس کے بعد 2001-1997 کے دوران انہوں نے فخرالدین جی ابراہیم اینڈ کمپنی کراچی کے ساتھ کام کیا جہاں انہوں نے سینیئرقانون دان فخرالدین جی ابراہیم کے ساتھ بطور اسسٹنٹ وکیل بھی کام کیا۔
2004 میں لا فرم کے لاہور آفس کی انچارج اور کارپوریٹ اینڈ لیگیشن ڈپارٹمنٹ کی سربراہی کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے پنجاب یونیورسٹی، لاہور کے شعبہ ماسٹرز آف بزنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لیکچرر کی حیثیت سے قانون کی تعلیم دی۔ وہ مرکنٹائل لا، کالج آف اکاؤنٹنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز، کراچی کی لیکچرر بھی رہیں۔
عائشہ اے ملک ہائی کورٹس، ضلعی عدالتوں، بینکنگ کورٹ، سپیشل ٹریبیونل اور ثالثی ٹریبیونل میں پیش ہوچکی ہیں۔ انہیں انگلینڈ اور آسٹریلیا میں خاندانی قانون کے معاملات میں ماہر گواہ کے طور پر بھی بلایا گیا، جس میں بچوں کی تحویل، طلاق، خواتین کے حقوق اور پاکستان میں خواتین کے آئینی تحفظ کے مسائل شامل ہیں۔
وہ غربت کے خاتمے کے پروگرامز، مائیکرو فنانس پروگرامز اور مہارتوں کے تربیتی پروگرامز میں شامل این جی اوز کے لیے مشیر بھی رہ چکی ہیں۔
انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی 50 ویں سالگرہ کے موقعے پر شائع ہونے والے پاکستان کالج آف لا کے 1956-2006 کے منتخب مقدمات کو بھی مرتب کیا۔
وہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی اشاعت، گھریلو عدالتوں میں بین الاقوامی قانون پر آکسفورڈ رپورٹس کے لیے پاکستان کی رپورٹر رہی ہیں۔