سامنے 1122 کی گاڑی کھڑی تھی، قریب ہی ایک ایمبولینس تھی۔ پیچھے ایک ٹرک بھی کھڑا تھا۔ میں اپنی بیٹی کو سکول سے لے کر آ رہی تھی۔ میری گاڑی کے سامنے پولیس نے رکنے کا اشارہ کیا اور ایک بوری میں کچھ اٹھا کر لے گئے۔
جی ٹی روڈ کے عین بیچ میں یو ٹرن پر لال رنگ میں بھیگا موٹر سائیکل لے جایا گیا۔ میں نے ہمت کر کے دیکھنے کی کوشش کی کہ کیا ہوا تو میری دائیں طرف بالکل سامنے سڑک پر تازہ تازہ خون پڑا تھا۔
شکر ہے میری بیٹی نہ دیکھ سکی نہ سمجھ سکی۔ اگلا سارا رستہ میں صرف یہی دعا کرتی رہی کہ اس موٹر سائیکل پر کوئی بھی ہو مگر طالب علم نہ ہو، کیونکہ میں جانتی ہوں کہ جی ٹی روڈ کے اس حصے کے گرد شہر کے سب بڑے اور چھوٹے سکول کالج واقع ہیں جن سے چھٹی کے بعد بہت سے بچے موٹر سائیکلوں پر نکلتے ہیں۔
میں ماں ہو اور میں کسی ماں کی یہ تکلیف نہیں دیکھ سکتی، مگر اس سے آگے سوچنا مشکل ہے کوئی انسان، شوہر، باپ یا بھائی آخر کوئی تو تھا اس بائیک پر خود سے تو بائیک نہیں چل رہی تھی۔
جی ٹی روڈ جو کینٹ سے لے کر روات تک چاروں طرف سے بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے، مارکیٹس، سکولز اور کالجوں سے بھری ہے۔ انہیں کالجوں اور سکولوں کے بیچ تیل کے ٹرکوں کا اڈا ہے۔ ہاؤسنگ سیکیموں، کینٹ اور آئل ٹینکر کے اڈے کے درمیان سے گزرتی یہ گرینڈ ٹرنک روڈ ہر طرح کی بے لگام اور خطرناک چھوٹی بڑی ٹریفک سے بھری ہوتی ہے خصوصاً سکول کی چھٹی اور بچوں کو ڈراپ کرنے کے اوقات میں۔
ہزاروں بچوں کے سکول اور کالج اس موت کے کنویں میں واقع ہیں جہاں ٹریفک قوانین اور ڈرائیونگ کے علم سے مکمل نابلد پاکستانی عوام اندھا دھند اور بے پروا گاڑی، ٹرک اور ہر چھوٹا بڑا وہیکل چلاتے ہیں، جہاں روزانہ دن میں سکول کے بچے دو بار اپنی جان کی بازی لگاتے ہیں۔
دارالحکومت کے بے شمار امیر ترین اور طاقت ور لوگ ان علاقوں میں رہتے ہیں جن کے بچے انہی سکولوں میں جاتے ہیں اور اس کی بدترین ٹریفک کی زد سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ شدید ترین طاقتور اور امیر ذاتی یا سرکاری گاڑی کے طور پر چھوٹی سڑکوں اور گنجان آباد علاقوں کے باوجود آج کل پراڈو یا ویگو گاڑیاں پسند کرتے ہیں، چنانچہ جو بھی بگڑے گا چھوٹی گاڑی والے کا بگڑے گا، پراڈو اور ویگو پر سوار لوگ بغیر گزند کے خیر خیریت سے گھر کو آ جائیں گے۔
پاکستانی سرکار و سلطنت میں کوئی پابندی نہیں کہ کسی بھی ڈرائیور کو ڈرائیونگ اور روڈ سیفٹی کا علم ہو یا نہیں ، وہ جب چاہے پراڈو یا ویگو لے کر سڑک پر آ سکتا ہے اور چھوٹی گاڑیوں، موٹرسائیکلوں، سائیکل سواروں اور پیدل چلنے والوں کو کچل سکتا ہے۔ یہی استحقاق ٹرکوں، بسوں، پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں اور سرکاری کاروانوں کا ہے۔
اسی وجہ سے دارالحکومت کے تمام امیر ترین، طاقتور ترین صاحب اختیار لوگ جو اس علاقے میں رہتے ہیں کو اس سے کوئی غرض ہی نہیں کہ یہ سڑک کس قدر خطرناک ہو چکی ہے۔
کینٹ کے کاروان، تیل کے ٹرک، سکولوں کی گاڑیاں اور بڑی نواب ہاؤسنگ سکیموں کے نوابوں کے ویگو اور پراڈوز کے ساتھ ساتھ تمام تر طاقت ور لوگوں کے اربوں کمانے والے سکولوں اور کالجوں کی برانچیں۔ نہ کسی مائی کے لال میں دم ہے کہ کہ تیل کے ٹرکوں کا اڈا یہاں سے اٹھوا سکے، یا کینٹ کو شہر سے باہر لے جایا جائے یا سکولوں کا رستہ الگ کیا جائے، یا وسیع کیا جائے، یا جی ٹی روڈ کا روٹ کسی اور طرف سے نکالا جائے۔ اور کچھ نہیں تو ٹریفک کا محکمہ اس حصے پر کڑی نگرانی ہی کرے، اس کی ٹریفک ہی کنٹرول کرے۔
دنیا بھر میں سکولوں اور کالجوں کا علاقہ بالکل مختلف اور مکمل سیف زون میں ہوتا ہے جن میں کسی ہاؤسنگ سکیم یا ہیوی مشنری کے داخلے کے اجازت نہیں ہوتی۔ قانون کہتا ہے کہ سکول کے قریب سے گزرتے رفتار آہستہ رکھی جائے۔ بچوں کی سکول بس کو اور ٹیک کرنا جرم سمجھا جاتا ہے۔ صرف سکول کی بس کے پاس یہ اختیار ہے کہ جہاں رک جائے وہیں سٹاپ کا بورڈ لگ جاتا ہے۔ اور کہاں پاکستان میں جی ٹی روڈ پر خطرناک ترین ٹریفک کے بیچ میں پھنسے امیر مگر لاوارث اور مسکین یہ بچے۔
ہمیشہ کی طرح اس موت اور وحشت کے رقص میں ٹریفک پولیس کا محکمہ سو رہا ہے۔ صرف ایک ٹریفک پولیس کے محکمے نے ہی اپنا کام کیا ہوتا تو آج پاکستان کی سڑکوں پر یہ گھمسان کارن نہ مچا ہوتا۔ صرف اسلام آباد اور راولپنڈی کی ٹریفک پولیس نے ہی اپنے فرائض پوری ایمانداری سے نبھائے ہوتے تو بھی آج صرف چابی لگا کر کار گھسیٹ لینے والے سڑک پر دوسروں کی زندگیوں سے نہ کھیل رہے ہوتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صرف اس ایک جی ٹی روڈ پر چلنے والے 99 فی صد لوگ چاہے امیر ہوں یا غریب، تعلیم یافتہ ہوں کہ ان پڑھ ٹریفک قوانین اور گاڑی چلانے کے بنیادی اصولوں سے قطعی لاعلم ہیں۔ راستہ دینا، دائیں بائیں دیکھنا، لین میں رہنا ، راؤنڈ اباؤٹ رولز، مین روڈ رولز، یو ٹرن سمیت ہر طریقہ اور قانون ان کے علم سے باہر کی چیزیں ہیں۔
جو شخص گاڑی چلا کر اسے آگے دھکیل سکتا ہے اسے قابل ڈرائیور سمجھا جاتا ہے۔ اکثر گاڑیوں والوں کو علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے ڈرائیور بچوں کو گاڑیوں میں بٹھا کر کس طرح خطرناک اور ٹیک کرتے ہیں اور ان کے بچوں کی زندگیاں داؤ پر لگاتے ہیں، کیونکہ اکثر ان کو بھی علم نہیں ہوتا کہ کیا صحیح طریقہ ہے اور کیا غلط۔
تین لین پر اکثر چھ سات لین بنی ہوتی ہیں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ اگلے موڑ پر یوٹرن لینے والوں کو پتہ ہی نہیں کہ یو ٹرن سے پہلے انہیں کون سی سڑک پر ہونا چاہیے۔ دائیں طرف والے نے بائیں طرف نکلنا ہے اور بائیں طرف والا دائیں طرف نکلنے کو بے چین ہے۔ ایک ہی پوائنٹ پر تینوں لین ہر کوئی بدلنا چاہتا ہے۔
لوگوں کو اس شعور کی ضرورت ہے کہ اپنے بچوں کے ساتھ دوسروں کے بچوں کی سلامتی کا بھی سوچیں ۔ ٹریفک قوانین کی پیروی کریں اور دوسروں کی سلامتی بھی یقینی بنائیں۔ ٹریفک کے محکمے کو پیسہ بنانے سے غرض ہے تو پکڑے سب اناڑی ڈرائیوروں اور ان کی گاڑیوں کو اور ان پر ہزاروں لاکھوں کے جرمانے دھرے۔ پیسہ کمانا ہی ایمان ٹھہرا تو صحیح کام کر کے بھی کمایا جا سکتا ہے۔ غلط سے ہی کیوں۔
حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مسائل کو سختی سے نپٹے، سڑک پر ہر سواری چاہے چھوٹی ہو یا بڑی اس کی سلامتی لازمی بنائے۔ جڑواں شہروں کی تمام انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے تمام تر اقدامات کریں۔
جو لوگ ان رستوں پر سے روز گالیاں دیتے گزرتے ہیں ان کی بھی ذمہ داری ہے کہ سڑک پر آنے سے پہلے روڈ سیفٹی اور قوانین کا مکمل علم لے کر آئیں۔ تمام انسانوں کی سماجی ذمہ داری ہے کہ نااہلی اور لاپروائی پر آواز اٹھائے۔
اپنے لیے نہیں تو کم سے کم اپنے بچوں کی خاطر۔