چند برس پہلے ایک سیدھا سادھا نوجوان برطانیہ آتا ہے اور تن سازی کی دنیا پر چھا جاتا ہے۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے سیٹ ڈیزائنر کے صاحبزادے نے برطانیہ میں اپنی محنت سے تن سازی کے میدان میں ایسا نام کمایا کہ بین الاقوامی پزایرائی ملنے لگی۔
برطانوی نژاد پاکستانی راحت علی شاہ نے اپنی زندگی کی کچھ تلخ اور حسین یادوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ 14 برس قبل پاکستان سے برطانیہ آئے۔ ان کے والد پاکستان فلم انڈسٹری میں بطور آرٹ ڈائریکٹر اور سیٹ ڈیزائنر کام کرتے تھے۔
راحت علی نے بتایا کہ ’وہ چاہتے تھے کہ میں زندگی میں آگے بڑھوں، کچھ کرکے دکھاؤں، اپنا اور اپنے خاندان کا نام روشن کروں، اپنے ملک کا پرچم دنیا میں بلند کروں۔ میں نے اپنے والد کے خواب اپنی آنکھوں میں سجا لیے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے تن سازی کے مقابلوں سے اپنی فتوحات کا آغاز کیا ’تو 2018 میں برٹش چیمپیئن کا اعزاز اپنے سینے پر سجایا، 2019 میں کوالیفائیڈ شو کا فاتح بنا، عالمی چیمپیئن شپ کے لیے کوالیفائی بھی کر لیا جبکہ حال ہی میں 2021 میں ’برٹ ایشین بیوٹی پیجنٹ‘ کے بعد اب نظریں 2022 کے مقابلے پر جما رکھی ہیں۔‘
سید راحت علی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنے کے دوران کئی مشکلات سے واسطہ پڑا۔
’ابتدا میں بہت سارے لوگ آپ سے وہ تعاون نہیں کرتے جس کی آپ ان سے امید رکھتے ہیں۔ سپانسر نہیں ملتے وغیرہ وغیرہ۔‘
سید راحت علی شاہ کے مطابق کامیابیوں کے سفر میں جہاں دنیا نے ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا وہیں پاکستان نے بھی انہیں سرآنکھوں پر بٹھایا۔
ان کے مطابق: ’حکومت پاکستان نے پرائیڈ آف فارمنس سے نوازا۔ تعریفی اسناد کے ساتھ سرکاری سطح پر سپورٹس مین کا درجہ ملا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ کھلاڑی کے لیے سب سے بڑا انعام اس کی حوصلہ افزائی ہے ’اگر انسان کو زندگی میں کچھ بننا ہے تو کامیابی کی کنجی حاصل کرنا ہوگی جو قسمت کا ہر بند تالا کھولتی ہے۔‘
سید راحت علی شاہ نے اپنی فٹنس کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ وہ صحت مند غذا پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے، جم کر ورزش کرتے ہیں، کھانا، پینا، سونا، جاگنا غرض یہ کہ اپنا ہر کام وقت پر انجام دیتے ہیں۔
اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ فیشن کی دنیا میں نام بنانا چاہتے تھے۔ یہ فن انہیں اپنے والد سے وراثت میں ملا مگر مشکل وقت میں کوئی ساتھ دینے نہ آیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہر جگہ سے مایوسی کے بعد ایک دن برطانیہ کے دروازے کھلے۔ جیسے قسمت مہربان ہوگئی ہو۔ تن سازی کی دنیا میں قدم رکھا اور کامیابی کے لیے دن رات ایک کر دیا۔‘
وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی دنیا کے کسی بھی کونے میں آباد ہوں وہ اپنی محنت اور صلاحیتوں سے دنیا کو اپنا گرویدہ بنانا جانتے ہیں۔ برطانیہ میں آباد لاکھوں پاکستانی برطانیہ کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
سید راحت علی شاہ کا کہنا ہے کہ ’سیاست ہو، تجارت ہو یا خدمت کا میدان۔ پاکستانی کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔‘