پاکستان کے سیاحتی مقام مری اور اس سے جڑے علاقوں میں گذشتہ دنوں پیش آنے والے حادثے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اتوار کو اعلان کیا تھا کہ مری کو پنجاب کا 37 واں ضلع بنانے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے مری میں 22 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد گذشتہ روز وہاں کا دورہ کیا جس کے بعد ان کا کہنا تھا کہ مری میں ایس پی اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر فوری تعینات کیے جائیں گے۔
بعض حلقے مری کو ضلع کا درجہ دینے کے فیصلے کو اچھا مان رہے ہیں وہیں کچھ کو خدشتہ ہے کہ اس سے اس سیاحتی مقام کی آبادی مزید بڑھے گی جس سے مزید مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ عثمان بزدار نے مری میں دو نئے پولیس سٹیشنز قائم کرنے کی بھی منظوری دے دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سنی بینک اور جھیکا گلی میں دو پارکنگ پلازے قائم کیے جائیں گے تاکہ مری میں سیاحوں کے ہجوم کو کنٹرول کیا جاسکے۔
7 دن میں ACS ہوم کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی اپنی رپورٹ پیش کرے گی اور غفلت/کوتاہی کے مرتکب ذمہ داروں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے گی
— Usman Buzdar (@UsmanAKBuzdar) January 9, 2022
مری کو ضلع بنانے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے،
اور فوری طور پر SP اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے عہدوں کے افسران کو مری میں تعینات کیا جائے گا
سیاح مال روڈ مری تک شٹل سروس کے ذریعے لائے جائیں گے جبکہ وہ اپنی گاڑیاں ان پارکنگ پلازہ میں کھڑی کریں گے جبکہ مری کے اندر ایک محدود تعداد میں سیاحوں اور گاڑیوں کو آنے کی اجازت دی جائے گی۔
مری کو ضلع بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
اس حوالے سے پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور نے انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم جو مری میں کرنے جا رہے ہیں اس حکمت عملی کے کئی پہلو ہیں، جن میں سے ایک پہلو یہ ہے کہ ہمیں وہاں پر انتظامی اٹانمی چاہیے تاکہ فیصلہ سازی جلد ہو۔‘
حسان خاور بتاتے ہیں کہ ’اس وقت مری راولپنڈی کی ایک تحصیل ہے تو ظاہر ہے ڈپٹی کمشنر اور دیگر انتظامیہ راولپنڈی میں بیٹھتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مری کو ضلع بنانے کا فیصلہ اسی لیے کیا گیا ہے تاکہ کسی بھی ناگہانی صورتحال میں جلد از جلد فیصلہ کیا جا سکے، کیونکہ جب انتظامیہ وہاں موجود ہوگی تو وہاں انتظامی مشینری زیادہ طاقتور ہوگی، زیادہ وسائل ہوں گے اور زیادہ موثر ہوگا۔‘
مری کو ضلع بنانے سے کیا وہاں رش مزید بڑھ جائے گا؟ اس حوالے سے ترجمان پنجاب حکومت حسان خاور کا کہنا ہے کہ ’رش نہیں بڑھے گا کیونکہ وہ لوگ جن کے کام ہیں وہ مری میں بیٹھے ہیں، پہلے انہیں راوپنڈی جانا پڑتا تھا اب ان کے کام وہیں ہو جائیں گے۔‘
’ضروری نہیں کہ ضلع کا انتظامی مرکز مری مال روڈ پر ہی بنایا جائے وہ مری میں ہی کہیں اور بھی بن سکتا ہے۔‘
تاہم ضلع کے نام کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ تاحال یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ ضلع کا نام کیا رکھا جائے گا۔
ضلع کا درجہ کس بنیاد پر ملتا ہے؟
ضلع راولپنڈی کو انتظامی طور پر سات تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں تحصیل راولپنڈی، مری، ٹیکسلا، کلر سیداں، کوٹلی سگیاں، کہوٹہ اور تحصیل گوجر خان شامل ہیں۔
ڈپٹی ڈائریکٹر اطلاعات کمشنر آفس لاہور ڈاکٹر عابد سلیمی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کوئی بھی ضلع ایک خود مختار اکائی ہوتا ہے۔ اس کے ریونیو کی حد دیکھی جاتی ہے۔ اب چونکہ یہ تحصیل مری کو ضلع بنا رہے ہیں تو اس کے ریونیو کی حد پہلے سے مقرر ہے۔‘
ریونیو کی حد کا مطلب ہے کہ جب کوئی تحصیل بنتی ہے تو اس کے ارد گرد لائن کھینچ دی جاتی ہے ریونیو کی، کہ اس کے اندر اتنے موضعے ہیں اور پھر ان موضعات کی آگے تقسیم ہوتی ہے خسروں اور کھاتوں کے اندر۔
ان کا کہنا تھا کہ ضلع دو تین وجوہات کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے۔ ایک وجہ کسی بھی جگہ کا رقبہ ہوتا ہے اور دوسرا اس کی آبادی۔
انہوں نے لاہور کی مثال دیتے ہوئے کہا: ’لاہور کا رقبہ تو وہی ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی البتہ اس کی آبادی میں تبدیلی ہوئی ہے جو کہ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ آبادی کے بڑھنے کی بنیاد پر انتظامی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔‘
’مثال کے طور پر جہاں 10 ہزار لوگوں پر ایک پولیس سٹیشن تھا اب وہیں ایک پولیس سٹیشن ایک لاکھ آبادی کو دیکھ رہا ہے۔ جو اتنے لوگوں کو نہیں دیکھ سکتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ آبادی بہت زیادہ بڑھنے کی وجہ سے لاہور کو بھی دو یا چار اضلاع میں تقسیم کرنے کی تجاویز دی جا رہی ہیں۔ ان تجاویز کی وجہ آبادی ہے لاہور کا رقبہ نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ جگہوں پر رقبہ بھی ضلع بنانے کا باعث بن جاتا ہے۔ جیسے رقبہ زیادہ ہو اور ایک افسر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں سو، سو کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑ رہا ہو تو وہ مشکل کام ہے۔
’اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بھی نئے اضلاع یا نئی تحصیلیں بنائی جاتی ہیں۔ اسی طرح نئی یونین کونسلز بھی بنائی جاتی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈپٹی ڈائریکٹر اطلاعات کمشنر آفس لاہور ڈاکٹر عابد سلیمی کا کہنا تھا: ’مری کو ضلع بنانے میں ایک تیسرا عنصر سامنے آرہا ہے اور وہ یہ ہے کہ مری ایک سیاحتی مقام ہے اور فرض کریں کہ اگر عام دنوں میں وہاں لوگوں کی آمد و رفت ایک لاکھ ہے تو سیاحتی موسم میں وہاں آمدو رفت لاکھوں میں چلی جاتی ہے۔ اور وہاں کی انتظامیہ اس قابل نہیں ہے نہ ان کے پاس اتنی زیادہ مشینری ہے کہ وہ مری میں رش زیادہ ہونے سے جو مسائل پیش آتے ہیں ان سے نمٹ سکے۔‘
’اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ تحصیل مری کو ضلع بنا دیا جائے۔ تاکہ وہاں خودمختار مشینری موجود ہو۔‘
اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی محمد علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مری کی آبادی پونے تین لاکھ کے قریب ہے اور کافی آبادی ایسی ہے جو سردیوں کے موسم میں نقل مکانی کرتی ہے۔ یہ لوگ اسلام آباد یا روالپنڈی چلے جاتے ہیں جبکہ سیاحتی سیزن جب عروج پر ہوتا ہے تو اس میں ایک دن میں 30 سے 40 ہزار گاڑیاں جبکہ 14 اگست وغیرہ پر گاڑیوں کی تعداد 50 ہزار تک بھی چلی جاتی ہے۔‘
ان کے مطابق: ’ایک گاڑی کے حساب سے اندازہ لگائیں تو ایک لاکھ کے قریب لوگ ایک دن میں یہاں آتے ہیں۔‘
مری ضلع بنا تو اس میں کتنی تحصیلیں ہوں گی اور انتظام کیسے چلے گا؟
ضلع راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر محمد علی بتاتے ہیں کہ مری راولپنڈی کی تحصیل ہے اور یہاں ایک میونسپل کمیٹی ہے جسے ٹی ایم اے کہتے ہیں۔
’اسسٹنٹ کمشنر اس کے انچارج تھے اور جب یہ ضلع بنے گا تو یہاں ڈپٹی کمشنر، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر، ریونیو سٹاف، پولیس، ڈسٹرکٹ سیشن ججزتعینات ہوں گے۔ اس کے علاوہ ہر ضلعے میں ڈسٹرکٹ جیل بنتی ہے، ڈی ایچ کیو ہسپتال جبکہ تعلیم کے لحاظ سے ضلع کا سکول و کالج وغیرہ بھی بنتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مری کی تین یا چار تحصیلیں بنائیں جائیں گی جبکہ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ اگر یہ ضلع بنتا ہے تو کوٹلی سگیاں کو بھی اس کی تحصیل بنا دیں گے جبکہ کہوٹہ کا کچھ حصہ بھی اس میں شامل کر دیا جائے گا۔
کیا مری کے ضلعے بننے پر راولپنڈی انتظامیہ خوش ہے؟
ڈپٹی کمشنر راولپنڈی محمدعلی کا کہنا ہے ’مری کو ضلع بنانے کا فیصلہ ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ جہاں پر ایک خودمختار اکائی بنتی ہے وہاں پر حکومت کے وسائل بھی زیادہ لگتے ہیں اور اس کے لیے فنڈز کی ضرورت بھی ہوتی ہے اور اگر یہاں فنڈز آتے ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ علاقے کی ترقی بھی ہوگی اور لوگوں کو بھی سہولیات ملیں گی۔‘
’فنڈز کے بغیر اگر ضلع بنتا ہے تو اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا لیکن ظاہر ہے یہ حکومت کا فیصلہ ہے تو اس میں ان سب چیزوں کو زیر غور لایا گیا ہے اور جب بھی عملاً اس پر کام ہوگا تو اس سے علاقے میں یقیناً بہتری آئے گی۔‘
ڈاکٹر عابد سلیمی کا کہنا تھا کہ چونکہ راولپنڈی سے بیٹھ کر مری جیسے سیاحتی مقام کو کنٹرول کرنا مشکل ہے لیکن اگر مری کے اندر ہی پورا انتظامی سٹاف بیٹھ جائے تو ان کے لیے صورت حال کو قابو میں رکھنا آسان ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب مری کی اپنی انتظامیہ ہوگی تو انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ مری میں ہوٹلوں اور سڑکوں کی گنجائش کیا ہے اور اسی حساب سے وہ اپنے داخلی و خارجی راستوں پر انتظامات کر سکیں گے۔