روس کے صدر ولادی میر پوتن نے پیر کو قزاقستان کے دفاع میں ’فتح‘ کا دعویٰ کیا ہے جبکہ قزاقستان کے صدر قاسم جومارت توکاییف کا کہنا ہے کہ روسی فوجی اب ’جلد‘ واپس چلے جائیں گے۔
ولادی میر پوتین کا کہنا تھا کہ یہ فتح غیر ملکی حمایت یافتہ دہشت گرد بغاوت کے خلاف حاصل کی گئی۔ انہوں نے دیگر سابق سوویت ریاستوں کے رہنماؤں سے وعدہ کیا کہ ماسکو کے زیر قیادت اتحاد ان کی بھی حفاظت کرے گا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق قزاقستان کے سب سے بڑا شہر الماتی میں تقریباً ایک ہفتے کی بدامنی کے بعد پیر کو حالات معمول پر آ گئے ہیں۔ وسط ایشیا میں سابق سوویت یونین کی سب سے مستحکم ریاست کو دوران بغاوت، آزادی کی 30 سالہ تاریخ میں اب تک کے بدترین تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
الماتی میں شہری صفائی کا عملہ تاحال سڑکوں پر پھیلا ملبہ اٹھانے میں مصروف جو ابھی تک جلی ہوئی کاروں سے بھری ہوئی ہیں۔ شہر میں زیادہ تر دکانیں دوبارہ کھل گئیں ہیں جب کہ پبلک ٹرانسپورٹ اور معمول کی ٹریفک بحال ہو گئی ہے۔ گذشتہ بدھ کے بعد پہلی بار شہر میں کئی گھنٹے کے لیے انٹرنیٹ سروس بھی بحال کر دی گئی ہے۔
میئر کے دفتر کے قریب چوک جسے بغاوت کے دوران جلا دیا گیا وہاں سیکورٹی فورسز تعینات کر کے اسے عوام کے لیے بند کر دیا گیا تھا جب کہ پولیس ناکوں پر گاڑیوں کی تلاشی لیتی رہی۔
پوتن نے سابق سوویت ریاستوں کے فوجی اتحاد سی ایس ٹی او کے ورچوئل سربراہی اجلاس میں انہیں سراہتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ ’ریاست کی بنیادوں کو کمزور کرنے، قزاقستان میں داخلی صورت حال کو مکمل تباہی کی کوشش سے نمٹنے اور دہشت گردوں، مجرموں، لٹیروں اور دوسرے جرائم پیشہ عناصر کو روکنے میں کامیاب رہا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پوتن کے بقول ’یقیناً ہم سمجھتے ہیں کہ قزاقستان میں ہونے والے واقعات ہماری ریاستوں کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کی پہلی اور آخری کوشش نہیں ہیں۔ سی ایس ٹی او کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات نے واضح طور پر دکھا دیا ہے کہ ہم داخلی سطح پر حالات خراب کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق قزاقستان کے صدر قاسم جومارت توکاییف نے پیر کو کہا کہ ان کے ملک نے گذشتہ ہفتے تاریخی تشدد کے دوران بغاوت کی کوشش کو ناکام بنا دیا ہے۔ ان کا اصرار تھا کہ روس کے زیر قیادت فوجی جنہوں نے بدامنی پر قابو پانے میں مدد کے لیے بلایا گیا ’جلد ہی‘ واپس چلے جائیں گے۔
توکاییف نے نے ویڈیو کانفرنس میں کہاکہ’مسلح عسکریت پسندوں‘ نے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کے لیے احتجاج کے پس منظر کو استعمال کیا۔ توکاییف کے بقول: ’بنیادی مقصد واضح تھا: آئینی نظام کو کمزور کرنا، سرکاری اداروں کی تباہی اور اقتدار پر قبضہ۔ یہ بغاوت کی کوشش تھی۔‘
قازق رہنما کا کہنا تھا کہ ماسکو کی زیرقیادت کلیکٹو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن (سی ایس ٹی او) نے صرف دو ہزار سے زیادہ فوجی تعینات اور ڈھائی سو ہتھیار نصب کیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی دستے’جلد ہی‘ملک سے چلے جائیں گے۔