نور مقدم قتل کیس کے تفتیشی افسر کا کہنا ہے کہ فرانزک کے علاوہ کوئی عینی شاہد یا ایسے شواہد نہیں ہیں جن سے ثابت ہو سکے کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے ہی قتل کیا ہے۔
تفتیشی افسر عبدالستار نے ایسا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں پیر کو ہونے والی سماعت کے دوران مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل کی جانب سے شواہد سے متعلق سوال کے جواب میں بتایا ہے۔
تفتیشی افسر نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ’جب ظاہر کو گرفتار کیا تو اس کی پینٹ کو خون نہیں لگا ہوا تھا‘ ملزم کے وکیل نے اگلا سوال کیا کہ کیا چاقو پر ظاہر کی انگلیوں کے نشان تھے؟ اس سوال کے جواب میں تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ ’ابتدائی رپورٹس میں اس سے متعلق لکھا ہے کہ چاقو پر ظاہر جعفر کی انگلیوں کے نشانات نہیں آئے۔‘ اس بات پر استغاثہ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ حتمی رپورٹ کے نتائج میں مختلف لکھا ہوا ہے جج صاحب نے کہا رپورٹ کا حوالہ لکھوا دیں۔
نور مقدم قتل کیس میں پیر کو ہونے والی سماعت کے دوران جب حاضری کے لیے مرکزی ملزم اور دیگر ملزمان کو بخشی خانے سے کمرہ عدالت لایا گیا تو ظاہر جعفر کو پولیس اہلکاروں نے بازوؤں سے پکڑ رکھا تھا۔
کمرہ عدالت پہنچ کر کچھ دیر کھڑے رہنے کے بعد ظاہر جعفر غنودگی کے عالم میں سر ایک طرف جھکا کر زمین پر بیٹھ گئے۔
سماعت شروع ہونے کے 15 منٹ بعد ملزمان کو بخشی خانہ سے کمرہ عدالت لایا گیا اور سماعت کے اختتام تک وہ ادھر ہی رہے۔ بخشی خانے سے ملزم ظاہر جعفر نے چلنے سے انکار کر دیا تو انہیں ٹانگوں اور ہاتھوں سے اٹھا کر پولیس اہلکار کمرہ عدالت تک لائے۔ بے ترتیب بالوں اور آنکھوں کے نیچے گہرے حلقوں کے ساتھ وہ بس خاموش نظروں سے سب کو دیکھ کر زمین پہ بیٹھ گئے اور کمرہ عدالت میں موجود اپنی والدہ عصمت جعفر سے بھی نہیں ملے۔
واپسی پر ظاہر جعفر کو پولیس اہلکاروں نے بازوؤں سے جب کہ ایک اہلکار نے گریبان سے پکڑ رکھا تھا اور انہیں زمین پر گھسٹتے پیروں کے ساتھ جیل کی گاڑی تک پہنچایا گیا۔ میڈیا نمائندگان نے پوچھا ’ظاہر کچھ کہنا چاہو گے؟‘ تو انہوں نے کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔
آج کی سماعت میں مزید کارروائی کیا ہوئی؟
تفتیشی افسر عبد الستار خان کے بیان پر مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل سکندر ذوالقرنین نے جرح شروع کی۔ واضح رہے کہ ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ ایڈوکیٹ پہلے ہی تفتیشی کے بیان پر جرح کر چکے ہیں۔
پبلک پراسیکیوٹر حسن عباس بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ تفتیشی افسر عبدالستار نے عدالت کو بتایا کہ ’میری 35 سال کی سروس ہو چکی ہے قانون کے مطابق ہر لفظ ہر فقرہ پولیس ڈائری میں لکھنا ضروری ہوتا ہے۔ پولیس انویسٹیگیشن ونگ سے مجھے پونے دس یا دس بجے واقعے کی اطلاع ملی تھی۔ میں سکندر حیات اور دوست محمد اے ایس آئی کے ہمراہ جائے وقوعہ پر پہنچا۔ پولیس ڈائری کے مطابق دوست محمد اے ایس ائی، سکندر حیات، زبیر مظہر، عابد لطیف، اعتزاز،ایس ایچ او تھانہ ویمن، لیڈی کانسٹیبل اقصیٰ رانی شامل تھے۔ میرے علم میں نہیں کہ زبیر مظہر نام کے دو بندے تھانہ کوہسار میں ان دنوں تعینات تھے۔‘
تفتیشی افسر نے مزید بتایا کہ ’زبیر مظہر پہلے ہی پہنچا ہوا تھا، میں نے جو اپنے ساتھ جانا لکھا ہے وہ غلط لکھا ہے۔ زبیر مظہر نے اپنے 161 کے بیان میں کہا ہے کہ مدعی اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ موجود ہے۔ میں نے صرف جواد جہاں کا پوچھا باقیوں کا نہیں پوچھا۔ جواد جہاں سے نہیں پوچھا کتنے بجے کیسے اطلاع پا کر وہ وہاں پہنچا۔ این ایس ایف اے کی ٹیم تقریبا سوا گیارہ بجے پہنچی اور ایک بجے کے بعد واپس چلی گئی۔ ملاحظہ موقع کی کارروائی کے بعد تقریبا پونے ایک بجے این ایس ایف اے عمران کا بیان لکھا تھا۔‘
تفتیشی افسر نے جرح کے دوران بیان میں مزید بتایا کہ ’چالان مرتب کرنے سے قبل اس سے متعلقہ ڈاکومنٹس پڑھے تھے۔ ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر وقت موت 21 جولائی بارہ بج کر دس منٹ لکھا ہوا ہے۔ پونے بارہ بجے ڈیڈ باڈی مارچری کے لیے روانہ کر دی تھی۔ ڈاکٹر شازیہ نے ایک ڈاکومنٹ دیا تھا جس پر ایڈمیشن کا وقت بارہ بج کر دس منٹ لکھا ہے۔ یہ سُن کر وکیل سکندر ذوالقرنین نے کہا کہ موت کی تاریخ 21 جولائی لکھی ہے یہ ڈیفنس سائیڈ سے ریکارڈ کا حصہ بنا لیں۔‘ جس پر ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے کہا کہ ’دیکھ لیتے ہیں۔‘
تفتیشی افسر نے بتایا کہ ’21 جولائی کو ظاہر جعفر کے پہلے فزیکل ریمانڈ میں کہیں ذکر نہیں کیا کہ وہاں سے کیا کیا بر آمد ہوا۔ 23 جولائی کے ریمانڈ کے لیے ظاہر جعفر کو پیش نہیں کیا تھا۔ 24جولائی کو پیش کیا تو زبانی جج صاحب کو بتایا تھا کہ 23 جولائی کو کیوں پیش نہیں کیا۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ اونرشپ سے متعلق ڈاکیومنٹ ہم نے جمع کرایا ہے۔ نقشہ موقع پر ظاہر کی موجودگی کا ذکر نہیں لکھا۔ بیسمنٹ بھی نقشے میں نہیں دیکھائی جو مجھے نظر آیا میں نے وہی نقشہ بنایا۔ 22 جولائی والے نقشے میں بھی ظاہر کو نہیں دکھایا۔ 21 جولائی کو تفتیش کے بعد موقع سے تقریبا رات تین بجے چلے گئے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تفتیشی افسر نے مزید بتایا کہ ’جس کمرے میں وقوعہ ہوا اس کمرے اور ایک ڈی وی آر والے کمرے کو سرچ کیا۔ باقی گھر کو سرچ نہ کرنے سے متعلق تفتیشی رپورٹ میں کہیں نہیں لکھا۔ 22 جولائی کو جو نقشہ بنوایا اس میں سی سی ٹی وی ہے ڈی وی آر نہیں دکھایا۔ بائیس جولائی کو اس گھر گیا ہوں وہاں چوکیدار سے گھر کھلوایا ہے چوکیدار کون تھا نہیں جانتا۔ تلاشی لینے کے بعد گھر کس کے حوالے کر کے جارہے ہیں یہ کہیں نہیں لکھا۔‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ’تالہ نہیں لگا تھا لیکن فلور وہی تھا کمرہ وہ نہیں تھا جہاں سے نور مقدم کا موبائل ریکور کیا ہے۔ ظاہر جعفر اور نور مقدم کے موبائلز وصول کیے اور نور مقدم کے موبائل کا ائی ایم ای آئی نمبر لکھوایا گیا۔‘
تفتیشی افسر نے مزید کہا کہ ’ریکوری میں دو گواہوں کے دستخط ہونے چاہییں لیکن یہاں سب پر ایک ایک کے دستخط ہیں۔ میں ذاتی طور پر نور مقدم کو نہیں جانتا تھا۔ نور مقدم کا فوٹو گرائمیٹری ٹیسٹ نہیں کرایا۔‘ انہوں نے دوران جرح بتایا کہ ’پولیس اہلکار عابد لطیف ایف آئی آر لے کے بارہ بج کر پانچ منٹ پر آگیا تھا۔ سیکیورٹی سسٹم لگا ہے یا نہیں اس سے متعلق معلوم نہیں۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں تفتیشی افسر نے مزید بتایا کہ ’سی سی ٹی وی میں جو نظر آ رہا ہے کہ نور مقدم کے کپڑے پھٹے دیکھے وہ کبھی ملے نہیں اور نہ میں نے کسی رپورٹ میں لکھا ہے، اس کے علاوہ نور مقدم کا ہینڈ بیگ اور اس نے جو کپڑے پہنے تھے وہ بھی کبھی نہیں دیکھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے ہمسائیوں یا باہر کسی چوکیدار کا بیان نہیں لکھا۔‘
نور مقدم کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل کی تفتیشی افسر کے بیان پر جرح مکمل ہونے کے بعد مزید سماعت کے لیے چھبیس جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔