سعودی عرب نے منگل کو تھائی لینڈ کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک نے ریاض اور بنکاک میں سفیروں کے تبادلے پر اتفاق کیا ہے۔
اس اعلان نے دونوں ممالک کے درمیان تین دہائیوں پر محیط بداعتمادی کے باب کو بند کر دیا ہے، جس کا آغاز ہیروں کی چوری کی سنسنی خیز کہانی سے ہوا تھا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان یہ پیش رفت تھائی وزیراعظم پرایوت چنو چا کے سعودی عرب کے سرکاری دورے کے دوران سامنے آئی جو 1989 کے سیاسی سکینڈل سے پیدا ہونے والے تناؤ کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ ترین سطح کا پہلا رابطہ تھا۔
سعودی عرب نے اس چوری پر تھائی لینڈ کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو محدود کر دیا تھا، جس کی وجہ سے پراسرار ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ سفارتی حلقوں میں اس واقعے کو ’بلیو ڈائمنڈ افیئر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے منگل کو تھائی وزیراعظم پرایوت چنو چا کے ساتھ بات چیت کی۔
ایس پی اے کے بیان میں کہا گیا کہ شاہی محل میں ملاقاتوں کے بعد دونوں ممالک کی جانب سے ماضی کی تلخی کو بھلا کر اقتصادی، سلامتی اور سیاسی تعلقات کو فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ دونوں ممالک توانائی اور پیٹرو کیمیکل سے لے کر سیاحت کے شعبوں میں مشترکہ سرمایہ کاری کریں گے۔
سیاحت ولی عہد محمد بن سلمان کے وژن 2030 کا ایک اہم جزو ہے، جس کا مقصد مملکت کے تیل کی معیشت پر انحصار کو ختم کرنا ہے۔
سعودی ایئر لائنز نے کہا کہ وہ رواں سال مئی سے ریاض سے بنکاک کے لیے براہ راست پروازیں شروع کرے گی۔
ولی عہد محمد بن سلمان سفارتی کاری کے ان معاملات کو سلجھا رہے ہیں، جنہیں اس سے پہلے کی حکومتوں نے نظر انداز کر رکھا تھا۔
ہیرا کیسے چوری ہوا تھا؟
1989 میں 50 قیراط کا انمول نیلا ہیرا تقریباً دو کروڑ ڈالر مالیت کے ان جواہرات اور زیورات میں شامل تھا جو سعودی شہزادے کے محل سے ایک تھائی گارڈ نے چوری کر لیے تھے۔ اس چوری نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو کشیدہ کر دیا تھا۔
سعودی عرب نے بنکاک کے ساتھ سفارتی رشتے ختم کرنے کے ساتھ تھائی کارکنوں کے لیے ویزوں کا اجرا اور ان کی تجدید بند کر دی تھی اور اپنے شہریوں کو بھی تھائی لینڈ کے سفر سے روک دیا تھا۔
اسی طرح بنکاک میں قیمتی جواہرات کی واپسی کا مطالبہ کرنے والے تین سعودی سفارت کاروں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
بنکاک میں مقیم گمشدہ زیورات کی تلاش کے لیے کام کرنے والے سعودی تاجر بھی لاپتہ ہوئے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بھی ہلاک کر دیے گئے تھے۔ ان ہلاکتوں کے لیے تھائی حکومت نے کسی کو سزا نہیں دی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تھائی حکومت نے منگل کو 1989 اور 1990 کے درمیان تھائی لینڈ میں سعودی سفارت کاروں اور شہریوں کے ساتھ پیش آنے والے ’المناک واقعات‘ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان واقعات سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لیے تیار ہے۔
تھائی پولیس نے اس معاملے کو حل کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن ریاض واپس بھیجے گئے زیورات میں سے زیادہ تر جعلی تھے۔
تھائی میڈیا کی ان رپورٹوں نے سفارتی طور پر اس وقت کھلبلی مچا دی تھی جب اعلیٰ تھائی حکام کی بیویوں کو ان ہیروں کے ہار پہنے ہوئے دیکھا گیا جو سعودی عرب سے چوری کیے گئے زیورات سے غیر معمولی مشابہت رکھتے تھے، تاہم نیلا ہیرا آج تک برآمد نہیں ہو سکا۔
سعودی نیوز ایجنسی نے مزید کہا کہ تھائی حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ اگر قتل کی وارداتوں سے متعلق کوئی نئے اور متعلقہ شواہد سامنے آتے ہیں تو وہ اس پر کارروائی کرے گی۔
دونوں ممالک کے درمیان اس سفارتی سکینڈل نے تھائی لینڈ کی پولیس فورسز میں بدعنوانی اور طاقت کے غلط استعمال کو بے نقاب کیا کیونکہ یہ قیاس آرائیاں عروج پر تھیں کہ سینیئر تھائی افسران اور اشرافیہ کے ارکان نے خود ان جواہرات کو ہتھیا لیا تھا اور اس کی پردہ پوشی کا حکم دیا تھا۔
تھائی لینڈ طویل عرصے سے تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا چاہتا ہے۔