ایٹمی ہتھیاروں کی مخالفت کرنے والے نوبل انعام یافتہ عالمی گروپ ’آئی کین‘ نے خبردار کیا ہے کہ یوکرین کے معاملے پر عالمی طاقتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے خطرے میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے دنیا کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کی بین الاقوامی مہم ICAN کی قیادت کرنے والی بیٹریس فین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ایک انٹرویو میں خبردار کیا ہے کہ اس تنازعے میں جوہری ہتھیاروں سے لیس ایک یا کئی ریاستوں کی شمولیت ’انتہائی خطرناک‘ ہے۔
دنیا کی دو سب سے بڑی جوہری طاقتیں یعنی واشنگٹن اور ماسکو یوکرین کے ساتھ سرحد کے قریب روسی فوج کی تعیناتی پر آمنے سامنے ہیں۔
امریکہ نے رواں ہفتے روس کی جانب سے یوکرین کو نیٹو میں شامل نہ کرنے کے کلیدی مطالبے کو مسترد کر دیا تھا لیکن واشنگٹن نے بحران سے نکلنے کے لیے ’سفارتی راستے‘ کی تلاش اور سکیورٹی کے حوالے سے کریملن کے خدشات کو دور کرنے کے لیے ’باہمی اقدامات‘ کی پیشکش کی ہے۔
فین نے صورتحال کو قابو میں رکھنے کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے خبردار کیا کہ تیزی سے بدلتے ہوئے سکیورٹی ماحول میں چیزیں بہت تیزی سے آگے بڑھ سکتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’مجھے خدشہ ہے کہ ہولناک حد تک چیزیں غلط ہو جائیں گی۔‘
انہوں نے روس میں سرحدوں اور پورے یورپ میں نصب جوہری ہتھیاروں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پورے پیمانے پر جنگ کی صورت میں یہ ہتھیار ’ہدف‘ بن سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’اس لیے ہمیں اس لمحے جنگ کو بھڑکانے والی دھمکیوں کی بجائے میز پر آکر مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے۔‘
فین نے اس کے علاوہ جوہری تخفیف کو فروغ دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے بیلاروس سے روسی جوہری ہتھیاروں کی وہاں تنصیب کی خواہش کے بارے میں باتیں سنی ہیں جو میرے خیال میں ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ تناؤ کو کم کرنے کا ایک اچھا طریقہ یہ ہوگا کہ بیلاروس، یوکرین اور دیگر ممالک ایک نئے عالمی معاہدے پر دستخط کریں جس میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال، ان کو جدید بنانے، ان کی پیداوار، ٹیسٹنگ، تنصیب اور ذخیرہ اندوزی پر پابندی عائد کی جائے۔
اس تنظیم کو جوہری ہتھیاروں کی ممانعت کے معاہدے کا مسودہ تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنے پر 2017 کا امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔ یہ معاہدہ ایک سال قبل نافذ العمل ہوا۔
59 ممالک نے اس معاہدے کی توثیق کی ہے اور اس سے بھی زیادہ ممالک نے اس پر دستخط کیے ہیں لیکن جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک یعنی امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین، بھارت، پاکستان، اسرائیل اور شمالی کوریا میں سے کوئی بھی ان ممالک فہرست میں شامل نہیں ہیں۔
فین نے خبردار کیا کہ یہ وہ وقت ہے جب دنیا کے پاس یوکرین کے مسٔلے پر مکمل جنگ کو روکنے کے لیے وقت کم ہے۔
دوسری جانب امریکہ اور اس کے اتحادی تیزی سے اپنی انٹیلی جنس رپورٹس عام کر رہے ہیں تاکہ روسی صدر ولادی میر پوتن کے یوکرین کے خلاف منصوبوں کو بے نقاب کرکے پوتن کے عالمی رائے عامہ کو تشکیل دینے کی کوششوں کو روکا جا سکے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق وائٹ ہاؤس نے حالیہ ہفتوں میں اس بات کی تشہیر کی ہے کہ روس یوکرین پر حملے کا بہانہ بنانے کے لیے ایک ’فالس فلیگ‘ آپریشن انجام دے رہا ہے۔
امریکہ کے اتحادی برطانیہ نے بھی اسی مہم کے تحت ایسے یوکرینی باشندوں کا نام ظاہر کیا ہے جن پر الزام ہے کہ ان کے یوکرین کے صدر ولادو میر زیلنسکی کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے والے روسی انٹیلی جنس افسران سے تعلقات قائم تھے۔
امریکہ نے روسی فوج کی پوزیشنز کا نقشہ بھی جاری کیا ہے اور تفصیل سے بتایا کہ ممکنہ طور پر روس ایک لاکھ 75 ہزار سے زائد فوجیوں کے ساتھ یوکرین پر حملہ کرنے کی کوشش کرے گا۔
دوسری جانب امریکہ نے یوکرین بحران کے حل کے لیے آئندہ پیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ میں امریکہ کی مندوب لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا ہے کہ ’یوکرین کی سرحد پر ایک لاکھ سے زیادہ روسی فوجی تعینات ہیں اور روس یوکرین کو غیر مستحکم کرنے والی دیگر کارروائیوں میں بھی ملوث ہے، جو بین الاقوامی امن و سلامتی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے لیے واضح خطرہ ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم سفارتکاری کے ذریعے کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ 15 رکنی سلامتی کونسل کو حقائق کا بغور جائزہ لینا چاہیے اور اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ یوکرین، روس، یورپ کو بنیادی طور پر کیا خطرہ ہے۔ ’کیا بین الاقوامی نظام کے اصولوں کے مطابق روس کو یوکرین پر مزید حملہ کرنا چاہیے۔‘