اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں لڑکے اور لڑکی سے مبینہ زیادتی کے مقدمے کی کارروائی کے دوران پولیس اہلکاروں نے تسلیم کیا کہ واقعے کی ویڈیو اپ لوڈ کرنے والے کا سرغ نہیں مل پایا ہے اور برآمد کی گئی بھتے کی رقم میں شامل کرنسی نوٹوں کے نمبر بھی تبدیل ہوئے ہیں۔
منگل کو مقدمے کے مرکزی ملزم عثمان مرزا کے وکیل جاوید اقبال وینس ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں دوسرے تفتیشی افسر شفقت محمود پر جرح کر رہے تھے۔
وکیل کے سوالات کے جواب میں تفتیشی افسر نے کہا کہ ٹویٹر پر وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) ابھی تک معلوم کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ متاثرہ لڑکے اور لڑکی کی ویڈیو سب سے پہلے کس نے ٹوئٹر پر اپ لوڈ کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں ایف آئی اے کو دو خطوط بھی لکھے جا چکے ہیں، تاہم ان مراسلوں کا ذکر عدالت کے سامنے نہیں کیا گیا۔
تفتیشی افسر نے مزید کہا کہ ملزم محب سے جو بھتے کی رقم برآمد کی گئی تھی اس میں شامل کرنسی نوٹوں کے سیریل نمبر ریکارڈ پر موجود نوٹوں کے نمبروں سےمختلف ہیں۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ کہ ان کے پیش رو کو دارالحکومت کی پولیس کے اعلی افسران نے تبدیل کیا تھا۔
انہوں نے کہا بتایا کہ ایس ایس پی انویسٹیگیشن اسلام آباد نے 7 جولائی کو انہیں مذکورہ کیس کی تفتیش پر تعینات کیا، جب کہ ان کے پیش رو طارق زمان نے لڑکی کو حبس بے جا میں رکھنے سے متعلق غلط دفعہ لگائی تھی۔
’کیونکہ لڑکی کو حبس بے جا میں رکھا گیا تھا اس لیے میں نے ملزمان پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 342 بھی شامل کی۔‘
یاد رہے کہ گزشتہ سال سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہونے والی ویڈیو میں کچھ لوگوں کو ایک لڑکے اور لڑکی کے ساتھ تشدد اور جنسی بدسلوکی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔
ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد پولیس تفتیش کے نتیجے میں انکشاف ہوا کہ واقعہ گولڑہ پولیس سٹیشن کی حدود میں واقع ایک فلیٹ میں ہوا تھا۔
پولیس نے چھ جولائی 2020 کو مقدمہ درج کر کے سات میں سے کچھ ملزمان کو گرفتار کیا۔
عدالت میں پولیس کی جانب سے جمع کروائے گئے چالان کے مطابق عثمان مرزا تمام واقعات کے مرکزی کردار ہیں، اور انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر لڑکے اور لڑکی کی نازیبا ویڈیو بنائی، انہیں بلیک میل کیا اور ان سے بھتے کی رقم بھی وصول کی۔
دوسری طرف مبینہ طور پر جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی لڑکی نے اپنے ابتدائی بیان میں بتایا تھا کہ ’عثمان مرزا اور اس کے ساتھیوں نے انہیں اور ان کے دوست کو زنا پر مجبور کیا، اور وہ لوگ ان کا مذاق اڑاتے رہے اور تمام واقعات کی فلم بندی بھی کرتے رہے۔‘
تاہم بعد ازاں لڑکا اور لڑکی نے اپنے بیانات سے پیچھے ہٹتے ہوئے پولیس پر جھوٹا مقدمہ قائم کرنے کا الزام لگایا۔
لڑکے اور لڑکی کے انکار کے بعد ریاست پاکستان نے اس مقدمے کی پیروی کرنے کا فیصلہ کیا، اور اسی سلسلے میں منگل کو کمرہ عدالت میں تحریک انصاف کی پارلیمانی سیکریٹری ملیکہ بخاری بھی موجود تھیں۔
وقفے کے دوران ملیکہ بخاری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ان کی موجودگی کا مقصد صرف عدالتی کارروائی دیکھنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست ہر مظلوم کے حق کی پاسداری کرے گی اور اسی لیے وہ یہاں موجود ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں کہ حکومت اس کیس میں سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟ انہوں نے کہا کہ عدالتی کارروائی دیکھنا ہر شہری کا حق اور وہ اسی آئینی و قانونی حق کا استعمال کر رہی ہیں۔
جرح کے دوران تفتیشی افسر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انہیں پوری تفتیش میں عام عوام میں سے واقعے کا کوئی عینی شاہد نہیں ملا، جب کہ ملزم محب کا ایک فون نمبر کلیریکل غلطی کے باعث کاغذات میں موجود نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ کسی موبائل کمپنی سے جرم میں استعمال ہونے والے موبائل نمبرز کی ملکیت کی تصدیق نہیں کرائی گئی، جب کہ 16 سے 20 نومبر 2020 کے دوران لڑکی کی لوکیشن فیض آباد نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ 18 نومبر 2020 کو لاہور سے اسلام آباد آنے کی متاثرہ لڑکی کی کوئی لوکیشن نہیں ہے جب کہ 16 نومبر سے 20 نومبر 2020 تک لڑکی کی لوکیشن اسلام آباد کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ جائے وقوعہ پر گئے جہاں انہیں ملزمان، لڑکا اور لڑکی سے متعلق ثبوت بھی ملا ہے، تاہم اس فلیٹ کی ملکیت یا استعمال سے متعلق شہادتیں اکٹھی نہیں کی گئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وقوعے کو آٹھ ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا اس لیے تفتیش کے دوران فلیٹ کے ارد گرد کسی گواہ کا بیان ریکارڈ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، اور نہ ہی فلیٹ کی تفصیلات پولیس ریکارڈ میں درج کی گئیں۔
جرح کے دوران ایک دوسرے پولیس اہلکار نے کہا کہ مرکزی ملزم عثمان مرزا کو رات ساڑھے گیارہ بجے گرفتار کیا گیا تو وہ اپنے آفس کے سامنے کھڑا تھا، وہاں دکانیں اور بازار کھلے تھے، تاہم وہاں کسی کا بیان ریکارڈ نہیں کروایا گیا۔