اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں جوڑے پر تشدد اور نازیبا حرکات کے مقدمے میں مبینہ طور پر متاثرہ لڑکے اور لڑکی نے آج ایک مرتبہ پھر ملزمان پر لگائے گئے الزامات کی تردید کر دی ہے۔
بدھ کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد کی عدالت میں لڑکے اور لڑکی نے الگ الگ جرحوں کے دوران وکلا کے کئی سوالات کے جواب دینے سے انکار کیا، یا ’مجھے نہیں معلوم‘، ’مجھے نہیں یاد‘ اور ’میں اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتی/چاہتا‘ جیسے موقف اپنائے۔
کئی سوالات کے جواب دیتے ہوئے لڑکے اور لڑکی کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آیا نہ انہوں نے کسی کو شناخت کیا، اور نہ ہی کوئی بیان قلم بند کروایا۔
یاد رہے کہ مذکورہ جوڑے پر مبینہ تشدد اور انسانیت سوز سلوک کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد گذشتہ برس چھ جولائی کو تھانہ گولڑہ شریف میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ابتدائی طور پر لڑکے اور لڑکی نے پولیس اور مجسٹریٹ کی عدالتوں میں عثمان مرزا اور پانچ دوسرے افراد پر جسمانی و جنسی تشدد، نازیبا حرکات، بھتہ وصول کرنے اور حبس بے جا میں رکھنے کے الزامات لگائے تھے۔
ٹرائل شروع ہونے پر انہوں نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد عطا ربانی کی عدالت میں تمام الزامات سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے پولیس کو غلط اور جھوٹا مقدمہ بنانے کا مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے مضبوط شواہد اور ثبوتوں کی موجودگی کے باعث مقدمے کی ریاست کی طرف سے پیروی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ایک روز قبل عدالت سے جوڑے کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے پر انہیں بدھ کو عدالت میں پیش کیا گیا جہاں ملزمان کے وکلا نے میاں بیوی پر جرح کی۔
جوڑے سے متعلق سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو دو مرتبہ بدھ کی سماعت کے دوران چلائی گئی، تاہم لڑکے اور لڑکی کے وکیل کی استدعا پر ایسا صرف متعلقہ وکلا کی موجودگی میں کیا گیا۔
عثمان مرزا سمیت دوسرے ملزمان کو محض حاضری لگانے کے واسطے کافی تاخیر سے عدالت میں پیش کیا گیا۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ کورٹس کے بخشی خانے میں تعینات پولیس اہلکاروں کے مطابق ہتھکڑیاں کم ہونے کے باعث ملزمان کو پیش کرنے میں تاخیر ہوئی۔
’آج مقدمے غیر معمولی طور پر زیادہ ہیں، بہت زیادہ ملزمان لائے گئے ہیں، جب کہ ہتھکڑیوں کے سیٹ کم ہیں ہمارے پاس، اسی لیے دیر ہوئی۔‘
مبینہ طور پر متاثرہ لڑکا اور لڑکی صبح سے کمرہ عدالت میں موجود رہے، اور زیادہ وقت کرسیوں میں بیٹھے رہے۔ ماسک لگائے، اور پریشان حال نظر آنے والے میاں بیوی عدالت میں ہر آنے جانے والے کو غور سے دیکھتے ہوئے پائے گئے۔
ملزمان کے وکلا کے سوالات کے جواب میں ایک موقعے پر مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بننے والی لڑکی کا کہنا تھا ’دنیا میں ایک ہی شکل کے سات انسان ہو سکتے ہیں، مجھے نہیں معلوم اس ویڈیو میں کون لڑکی تھی، کم از کم میں تو نہیں تھی۔‘
ان سے شیر افضل ایڈوکیٹ نے دریافت کیا تھا کہ وائرل ہونے والی ویڈیو میں جو لڑکی دیکھی جا سکتی ہے اس کی شکل اور آواز ان سے بہت زیادہ ملتی ہے۔
آواز کے متعلق لڑکی کا کہنا تھا کہ انہیں معلوم نہیں کہ ایسا کیوں کر ممکن ہو گیا ہے۔
اسی طرح جب مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بننے والے لڑکے سے اسی طرح کے سوالات کیے گئے تو کئی مرتبہ انہوں نے لمبی خاموشی اپنائی اور اکثر میں ’مجھے نہیں معلوم‘ کہہ دیا۔
ایک دوسرے موقعے پر لڑکی نے شیر افضل ایڈوکیٹ کے جواب میں کہا کہ وہ اس مقدمے کے سلسلے میں کسی پولیس اہلکار یا افسران سے نہیں ملیں تو وکیل نے ان سے دریافت کیا: ’تو آپ نے سادے کاغذات پر دستخط اور انگوٹھے کے نشانات کیسے ثبت کئے؟‘
اس پر لڑکی نے اپنا بیان تبدیل کرتے ہوئے کہا: ’جی میں پولیس اہلکاروں سے ملی تھی۔‘
شیر افضل ایڈوکیٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ لڑکی کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے دونوں میاں بیوی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالا جانا چاہیے۔
شیر افضل ایڈوکیٹ کی متاثرہ لڑکی اور لڑکے سے جرحوں کے درمیان بعض مواقع پر جج عطا محمد ربانی کو بھی مداخلت کرنا پڑی۔
لڑکے پر جرح کے دوران شیر افضل ایڈوکیٹ کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ آزاد حیثیت میں (فری لانس) پراپرٹی کا کام کرتے ہیں، تاہم وکیل کے پراپرٹی کے سوالات سے متعلق وہ کئی مرتبہ ڈگمگاتے رہے۔
ایک موقعے پر شیر افضل ایڈوکیٹ نے ان سے دریافت کیا کہ مذکورہ واقعے کے وقت انہیں کہاں کہاں تھپڑ پڑے اور کہاں سب سے زیادہ تکلیف ہوئی۔
اس سوال کا جواب دینے کے بجائے متاثرہ لڑکا کافی دیر تک سر جھکائے خاموش کھڑا رہا، اور بالآخر کہا ’میں اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جرح کے دوران جب لڑکے سے مذکورہ ویڈیو میں تشدد کا نشانہ بننے والے شخص کی شناخت سے متعلق دریافت کیا گیا تو ایک مرتبہ پھر وہ کافی دیر تک خاموش رہے۔
وکیل کے بار بار پوچھنے کے باعث جج نے بھی ایک مرتبہ سوال دھرایا تو انہوں نے بالآخر کہا‘ ’وہ میں نہیں ہوں۔‘
شیر افضل ایڈوکیٹ کے دریافت کرنے پر لڑکے نے کہا کہ ویڈیو کی فرانزک کے نتیجے میں اس میں ان کی موجودگی ثابت ہونے کے بعد انہوں نے ایف آئی اے کو نہیں بتایا کہ ویڈیو میں وہ موجود نہیں ہیں۔
لڑکے نے ایک دوسرے موقعے پر کہا کہ وہ پولیس کو ابتدا سے کیس نہ بنانے کا کہتے رہے ہیں لیکن ان کی نہیں سنی گئی، جس پر وکیل نے انہیں ان کا پہلا بیان یاد کروایا جس میں وہ مقدمہ درج کرنے کے کی ہامی بھر چکے تھے۔ ’میں اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا،‘ وہ اتنا ہی کہہ پائے۔
وکلا کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے لڑکے اور لڑکی کی بے ربط گفتگو، ایک دوسرے سے اور اپنے ہی مختلف سوالوں کے متضاد جوابات اور اکثر جوابات سر جھکا کر آنکھیں ملائے بغیر دینے سے ظاہر ہو رہا تھا کہ ان کی سوچ میں گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران بہت بڑی تبدیلی آئی ہے جس کے ساتھ سمجھوتہ کرنا ان کے لیے مشکل ہو رہا ہے۔
لڑکے اور لڑکی کے وکیل نے بھی جرحوں کے دوران پوچھے گئے سوالات کے جواب دینے میں اپنے موکلوں کی مختلف طریقوں سے مدد کرنے کی کوشش کی، تاہم ملزمان کے وکلا نے انہیں ایسا کرنے سے ہر بار روکنے کی کوشش کی۔