ڈسٹرکٹ کورٹ اسلام آباد میں منگل کو نوجوان جوڑا ہراسانی کیس کی سماعت کے دوران شریک ملزم محب بنگش نے بخشی خانے کے اندر پولیس کی جانب سے ہراساں کرنے کا الزام لگایا۔
ملزم نے پولیس پر ہراساں کرنے کے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’گذشتہ سماعت پر جب بخشی خانہ گیا تو مجھے واپس لے جایا گیا کہ کوئی ملنے آیا ہے۔
’وہ اس مقدمے کے تفتیشی افسر تھے جو مجھے بخشی خانہ میں ساتھ والے کمرے میں لے گئے۔ انہوں نے میرا نام پوچھا، میں نے ان سے پوچھا کیا بات کرنی ہے؟ ایک فون الٹا کر کے انہوں نے رکھا ہوا تھا، ایک پیچھے بیٹھا تھا، شاید ویڈیو بنا رہا تھا۔ میں نے بتایا کہ الحمداللہ میں روٹس سے پڑھا ہوا ہوں۔‘
’وہ دھمکاتے ہوئے مجھے کہتے ہیں تم ہماری بات مانو کہ تم نے یہ جرم کیا ہے۔ میں وہاں سے بھاگا تو انہوں نے مجھے پکڑنے کی کوشش کی۔ وہ کہتے ہیں ہم جج سے آرڈر لے کر آئے ہیں۔‘
عدالت نے تفتیشی افسر سے محب بنگش کے الزامات کے حوالے سے استفسار کیا تو تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ ’میں جوڈیشل مجسٹریٹ سے تحریری اجازت لے کر بخشی خانہ گیا۔
’ملزم محب بنگش کی وائس سیمپلنگ کے لیے ملا تھا۔ ملزم کی وائس کا فرانزک پہلے نہیں ہوا تھا، اب وائس سیمپلنگ کی ضرورت پڑی۔‘
تفتیشی افسر نے جوڈیشل مجسٹریٹ سے اجازت نامے کی دستاویز بھی عدالت کو فراہم کردی۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں عثمان مرزا ہراسانی کیس میں منگل کو ہونے والی سماعت میں دو تفتیشی افسروں پہ جرح ہوئی۔
صبح 10 بجے شروع ہونے والی سماعت کئی گھنٹے جاری رہی۔ واضح رہے کہ متاثرہ لڑکا اور لڑکی کا بیان اور جرح گذشتہ سماعت پر ہو چکی ہے اس لیے منگل والی سماعت میں انہیں نہیں بلایا گیا۔
پہلے تفتیشی افسر طارق زمان، جو شروع کے 24 گھنٹے میں اس کیس کے تفتیشی رہے، اُن پر شریک ملزم کے وکیل نے جرح کی۔
وکیل کی جرح کے سوالات کے جواب میں تفتیشی افسر طارق زمان نے بتایا کہ ’بغیر یونیفارم کے حسن مجتبیٰ میرے پاس چھ جولائی کو یہ شکایت لے کر آیا۔ مجھے استغاثہ سے پتہ چلا تھا کہ ای الیون میں وقوعہ ہوا ہے۔‘
تفتیشی افسر نے بتایا کہ وہ 24 گھنٹے تک اس کیس میں تفتیشی افسر رہے۔ ’میرے علم میں ہے کہ کسی بھی ملزم کے موبائل سے یہ ویڈیو وائرل نہیں ہوئی، کس موبائل سے یہ ویڈیو وائرل ہوئی یہ سامنے نہیں آیا۔‘
اس موقعے پر وکیل نے سوال کیا کہ ’ڈینیل پرل کیس کے تناظر میں، میں کہہ رہا ہوں یہ اوریجنل ویڈیو فرانزک نہیں ہوئی بلکہ اس کی کاپی فرانزک ہوئی‘۔
اس پر تفتیشی افسر طارق زمان نے جواب دیا کہ ’میرے علم میں نہیں ویڈیو ایس ایچ او تھانہ گولڑہ کے موبائل کی فرانزک ہوئی۔‘
تفتیشی افسر نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ’ویڈیو کلپ دیکھے ہیں لیکن مجھے یاد نہیں ریحان حسین مغل بھی ان میں ہیں۔ ملزم ریحان کا پتہ ہے گرفتار ہوا لیکن اس کی تاریخ اور وقت کا معلوم نہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ تفتیش کے دوران ملزم ریحان کی وائس میچنگ نہیں کرائی۔
سب انسپکٹر طارق زمان نے مزید بتایا کہ ’کسی بھی وائرل ویڈیو میں ملزم ریحان کی موجودگی یا متاثرہ لڑکا لڑکی کو ہاتھ لگانے کے شواہد نہیں ہیں۔ ملزم ریحان کی وائرل ویڈیو میں کہیں آواز بھی موجود نہیں ہے۔ پورے کیس میں کرنسی نوٹ کے علاوہ ریحان سے کچھ برآمد نہیں ہوا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعد ازاں ملزم ریحان کے وکیل عاصم مختار نے تفتیشی افسر انسپکٹر شفقت پر جرح شروع کی۔
دوسرے تفتیشی افسر انسپکٹر شفقت نے سوالات کے جواب میں بتایا کہ تفتیش میں متاثرہ لڑکی کے دو بیانات جب کہ متاثرہ لڑکے کے تین بیانات لکھے۔
’متاثرہ لڑکا خود اپنے اور متاثرہ لڑکی کے کپڑے پولیس کے پاس لایا تھا۔ ملزم ریحان کو دیگر ملزمان کے بیان پر آٹھ جولائی کو نامزد کیاگیا لیکن بلا واسطہ کوئی ثبوت نہیں ہے۔‘
تفتیشی افسر انسپکٹر شفقت نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ملزم ریحان نے ویڈیو بنائی لیکن کس موبائل سے بنائی یہ معلوم نہیں۔ تفتیش کے مطابق دو افراد متاثرہ لڑکا لڑکی کی ویڈیو بنا رہےتھے۔
ملزم ریحان کے آڈیو میچ نہ کروانے کے سوال پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ ’ملزم ریحان کی وائس میچنگ اس لیے بھی نہیں کروائی کیونکہ ریحان کی آواز وائرل ویڈیو میں نہیں تھی۔‘
عدالت نے مزید سماعت کے لیے یکم فروری تک ملتوی کر دیا۔ آئندہ سماعت پر عثمان مرزا کے وکیل تفتیشی افسر پر جرح کریں گے۔