صدر ولادی میر پوتن نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر یوکرین کے معاملے میں روس کی سکیورٹی کے حوالے سے ماسکو کے اہم مطالبات کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ کریملن یوکرین پر کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اب بھی مزید بات کرنے کے لیے تیار ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری کشیدگی کے دوران یہ روسی صدر کا پہلا بیان ہے، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ یوکرین پر ممکنہ روسی حملہ کا مستقبل قریب میں امکان نہیں ہے اور یہ کہ کریملن سفارت کاری کو ایک اور موقع دینا چاہتا ہے۔
اس کے باوجود دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور امریکی مراعات کی بظاہر بہت کم امید ہے۔
توقع ہے کہ روس کے مطالبات پر مذاکرات کی امریکی تجویز کا جلد جواب دیا جائے گا، جس کے بعد روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور امریکی وزیر خارجہ انٹینی بلنکن بات کریں گے۔
لاوروف اور بلنکن نے منگل کو ٹیلی فون پر بات کی اور صدر پوتن اور صدر جو بائیڈن کی طرف سے پیش کردہ موقف کا اعادہ کیا۔ وائٹ ہاؤس نے کہا کہ روس کی جانب سے جواب کے بعد صدر بائیڈن اپنے روسی ہم منصب سے بات کر سکتے ہیں۔
روس کا دورہ کرنے والے نیٹو کے اتحادی ملک ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربن کے ساتھ منگل کو ماسکو میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں پوتن نے کہا کہ کریملن اب بھی امریکہ اور نیٹو کی جانب سے روسی سکیورٹی کے حوالے سے مطالبات کے جواب کا جائزہ لے رہا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ مغرب نے نیٹو کی جانب سے یوکرین اور دیگر سابق سوویت ریاستوں کو اتحاد میں جگہ نہ دینے، روسی سرحدوں کے قریب ہتھیاروں کی تنصیب سے باز رہنے اور مشرقی یورپ سے فوجیں واپس بلانے کے روسی مطالبات کو نظر انداز کر دیا ہے۔
پوتن نے دلیل دی کہ اگر روس کے سکیورٹی خدشات سمیت تمام فریقین کے مفادات کو مدنظر رکھا جائے تو اس تعطل کے خاتمے کے لیے بات چیت ممکن ہو سکتی ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’مجھے امید ہے کہ ہم آخرکار کوئی حل تلاش کرلیں گے حالانکہ ہمیں احساس ہے کہ یہ آسان نہیں ہوگا۔‘
روسی صدر کا کہنا تھا کہ مغربی اتحادیوں کا روس کے مطالبات کو پورا کرنے سے انکار تمام اقوام کی سالمیت اور ان کی سلامتی کے حوالے سے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ نیٹو میں یوکرین کی شمولیت ایسی صورتحال کا باعث بن سکتی ہے جہاں یوکرین روس کے زیر کنٹرول کریمیا یا ملک کے مشرق میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے زیر کنٹرول علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے فوجی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔
پوتن نے کہا: ’تصور کریں کہ یوکرین نیٹو کا رکن بن جاتا ہے اور وہ فوجی آپریشن شروع کرتا ہے تو کیا پھر ہمیں نیٹو سے جنگ کرنی چاہیے؟ کیا کسی نے اس کے بارے میں سوچا ہے؟‘
انہوں نے الزام لگایا کہ جہاں امریکہ یوکرین کی سلامتی کے بارے میں خدشات ظاہر کر رہا ہے، وہیں وہ روس پر قابو پانے کی کوششوں میں سابق سوویت ریاست کو بطور ’آلہ‘ استعمال کر رہا ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ’واشنگٹن ہمیں فوجی تنازع کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر سکتا ہے اور یورپ میں اپنے اتحادیوں کو ان سخت پابندیوں کے لیے مجبور کرسکتا ہے، جن کے بارے میں امریکہ اب دھمکیاں دے رہا ہے۔‘
پوتن نے دعویٰ کیا کہ ’دوسرا ممکنہ آپشن یہ ہوگا کہ یوکرین کو نیٹو میں شامل کیا جائے، وہاں خطرناک ہتھیاروں کی تنصیب کی جائے اور یوکرینی قوم پرستوں کو باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی حصے یا کریمیا پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کی ترغیب دی جائے، ایسا کرنا ہمیں ایک فوجی تنازع کی جانب دھکیل دے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روسی صدر کا کہنا تھا کہ اب بھی ایسے تصفیے پر بات چیت ممکن ہے جس میں ہر فریق کے تحفظات کو مدنظر رکھا جائے۔
ان کے بقول: ’ہمیں یوکرین، یورپی ممالک اور روس سمیت تمام فریقوں کے مفادات اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ایک راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں جلد ہی ماسکو کا دورہ کرسکتے ہیں، جن سے انہوں نے پیر کو نئی سفارتی کوششوں کے لیے ٹیلی فون پر بات کی تھی۔
اس سے قبل گذشتہ ہفتے نیٹو نے کہا تھا کہ وہ اپنی فوجوں کو تیار رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے مشرقی یورپ میں مزید بحری جہاز اور لڑاکا طیارے بھیج رہا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نیٹو کے سیکریٹری جنرل جان سٹولٹن برگ نے فوجی اتحاد کے رکن ممالک کی جانب سے حالیہ فوج کی تعیناتی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ’نیٹو تمام اتحادیوں کی حفاظت اور دفاع کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا جس میں اتحاد کے مشرقی حصے کو مضبوط بنانا بھی شامل ہے۔‘
نیٹو کا تازہ اقدام مزید اشارہ ہے کہ مغربی ممالک روس کا مقابلہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، جس نے یوکرین پر حملے کے لیے اس کی سرحد پر اندازے کے مطابق ایک لاکھ فوج جمع کر رکھی ہے۔
تاہم روس نے یوکرین پر حملے کے ارادے کا انکار کیا ہے۔
شمال، مشرق اور جنوب سے یوکرین کا محاصرہ کرکے بحران پیدا کرنے کے بعد ماسکو اب مغرب کے ردعمل کو اپنے اس بیانیے کے حق میں ثبوت قرار دے رہا ہے کہ روس کو ہدف بنایا جارہا ہے اور وہ جارحیت کو ہوا دینے والا ملک نہیں۔