برطانیہ کی حکومت کا کہنا ہے کہ مستقبل میں خلا ایک اہم میدان جنگ بن جائے گا جہاں سب سے بڑا خطرہ ’ایکسو ایٹموسفیرک نیوکلیئر اٹیک‘ یعنی زمین کی فضا کے باہر جوہری حملے ہیں۔
برطانوی وزارت دفاع کی ایک رپورٹ میں ادارے نے اس طرح کے حملے کو ’مستقل خطرے‘ کے منظر نامے کے طور پر بیان کیا ہے جو الیکٹرانک جنگوں، لیزر سے وار، سائبر حملوں یا اے ایس اے ٹیز (مدار میں اینٹی سیٹلائٹ ہتھیاروں) کے مجموعی حملوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہوگا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’اس سے خلا میں (عارضی طور پر یا طویل مدتی یا ممکنہ طور پر اہم لمحات میں) خلل پڑ سکتا ہے یا پھر الیکٹرانک جنگ سے لے کر جسمانی اور غیر جسمانی حملوں کے خطرات ہیں۔‘
تاہم رپورٹ میں اس طرح کے حملے کے امکان کے بارے میں مزید تفصیل نہیں بتائی گئی۔ دی انڈپینڈنٹ نے مزید معلومات کے لیے برطانیہ کی وزارت دفاع سے رابطہ کیا ہے۔
رکن پارلیمان اور دفاعی سکریٹری بین ویلیس نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’خلا کے بے مثال فوائد ہیں لیکن اسے نئے خطرات کا بھی سامنا ہے۔ روزمرہ کی زندگی خلا پر انحصار کرتی ہے اور مسلح افواج کے لیے بھی خلا اہم ہے جو عسکری ٹیکنالوجیز میں بھی مددگار ہے۔‘
انہوں نے مزید لکھا: ’خلا ہمیں عالمی سطح پر کمانڈ اور کنٹرول، نگرانی اور انٹیلی جنس فراہم کرنے اور میزائلوں کے خلاف وارننگ کی صلاحیت رکھنے کے قابل بناتا ہے۔‘
سپیس ایکس اور ایمازون جیسی نجی کمپنیوں کے تیار کردہ کویپر پروجیکٹ کی مدد سے میگا کانسٹیلیشنز (ہزاروں مصنوعی سیٹلائٹس کے نیٹ ورک) اور دوبارہ استعمال کے قابل راکٹوں کی وجہ سے خلا تک رسائی سستی اور آسان ہو گئی ہے. جس سے اس شعبے میں مسابقت، تنازعے اور مقابلے بازی بھی بڑھی ہے۔
وہ ممالک جو برطانیہ سے دشمنی کر سکتے ہیں، جیسا کہ روس اور چین، جن کا خاص طور پر رپورٹ میں ذکر ہے، الیکٹرانک جنگ، براہ راست توانائی کے ہتھیار، مدار میں اینٹی سیٹلائٹ ہتھیار اور زمین سے داغے گئے اینٹی سیٹلائٹ میزائلوں کے ذریعے ہماری سیٹلائٹ مواصلات کو روکنے، ان کا فائدہ اٹھانے اور ہمارے خلائی نظام کو خطرے سے دوچار کرنے اور ممکنہ طور پر تباہ کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے بچاؤ کے لیے حکومت برطانوی سیٹلائٹ دفاعی نظام، سکائی نیٹ، کو مزید سینسرز کے ساتھ بہتر بنانے کے لیے ’ممکنہ موقعوں‘ پر غور کر رہی ہے جس میں کوانٹم فیلڈ سینسرز، سیکنڈری پے لوڈز اور مزید خلائی جاسوسی شامل ہے۔
رپورٹ میں انٹیلی جنس اکٹھا کر کے پیشگی خطرات سے نمٹنے کے لیے دفاع پر توجہ دی گئی ہے۔ اس میں لکھا ہے: ’ہم نگرانی کرتے رہیں گے، اسے سمجھنے کی کوشش کریں گے اور جہاں مناسب ہوا خلا میں ہمارے مفادات کے خلاف کارروائیوں کا بھرپور جواب دیں گے۔‘
’ہم نیٹو کے اس اعتراف کا خیرمقدم کرتے ہیں کہ خلا سے یا اس کے اندر حملے اتحاد کی سلامتی کے لیے ایک واضح چیلنج ہیں اور یہ نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی کے آرٹیکل پانچ کی خلاف ورزی کا باعث بن سکتے ہیں۔ ہم بین الاقوامی اور ملکی قانون کے مطابق اس کا مناسب جواب دیں گے۔‘
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’متعدد ماحولیاتی خطرات بھی ہیں جو خلا میں اور زمین دونوں پر ہماری صلاحیتوں میں خلل ڈال سکتے ہیں‘ جیسے خلائی ملبہ یا سولر فلیئرز (سورج سے نکلتے شدید شعلے) جو ’سیٹلائٹ کی صلاحیت کو کم کر سکتے ہیں یا غیر ضروری اثرات پیدا کر سکتے ہیں۔‘
ان چیلنجز کا حل ڈپارٹمنٹ فار بزنس، انرجی اینڈ انڈسٹریل سٹریٹیجی کی بعد کی رپورٹ میں پیش کیا جائے گا۔
ماہرین نے خلائی ملبے پر ان کے ممکنہ مضر اثرات کی وجہ سے تمام اینٹی سیٹلائٹ ہتھیاروں پر پابندی لگانے کا مشورہ دیا ہے۔
خلابازوں، خلائی ایجنسیوں اور حکومتی حکام نے اقوام متحدہ سے ایک خط میں ایسے ہتھیاروں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے جو ’مدار میں موجود اشیا کو تباہ یا غیر فعال کرنے کے لیے کسی کِل وہیکل یا شراپنل کا استعمال کرتے ہوئے تیز رفتار سٹرائیک میں استعمال ہوتے ہیں۔ ‘
امریکی سپیس کمانڈ کے مطابق روس نے جولائی 2020 میں پہلی بار اور اُسی سال دسمبر میں دوبارہ ’خلا میں اینٹی سیٹلائٹ ہتھیار کا تباہی کے بغیر ٹیسٹ‘ کیا تھا۔
پینٹاگون کی ایک رپورٹ کے مطابق چین ایسے میزائل اور الیکٹرانک ہتھیار بھی تیار کر رہا ہے جو زیادہ بلندی اور نچلے مدار میں موجود سیٹلائٹس کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
امریکہ بھی خلا کی تسخیر میں مصروف ہے۔ رپورٹس کے مطابق امریکہ ایسے خلائی ہتھیاروں کو منظر عام پر لا سکتا ہے جو بظاہر ہدف سیٹلائٹ یا خلائی جہاز کو تباہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اس طرح کے ہتھیاروں کو 2020 میں منطر عام پر لایا جا سکتا تھا لیکن کرونا وبا اور ٹرمپ انتظامیہ کے افغانستان سے انخلا کے منصوبوں نے اس طرح کے اعلان کو موخر کر دیا تھا۔
© The Independent