اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ القاعدہ، جماعت انصاراللہ اور ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کر پاکستان اور تاجکستان میں ’چین کے مفادات‘ پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
سکیورٹی کونسل کی یہ رپورٹ تین فروری کو جاری ہوئی جس میں پوری دنیا میں شدت پسند تنظیموں کی جون 2021 سے دسمبر 2021 تک کے معاملات کا احاطہ کیا گیا۔
رپورٹ میں نام نہاد داعش، ایسٹ ترکستان موومنٹ، القاعدہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے حوالے سے بتایا گیا کہ وہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے آنے کے بعد کس طرح فعال ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایسٹ ترکستان اسلامک موومٹ یا ترکستان اسلامک پارٹی مغربی چین کی شدت پسند تنظیم ہے جو چین کے صوبہ سنگیانک اور افغانستان کے چین کے ساتھ سرحد پر فعال ہے۔ یہ گروپ صوبہ سنگیانک کو آزاد کرنے کے لیے چین پر دباؤ ڈالتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان حکومت کا موقف جاننے کے لیے دفتر خارجہ سے رابطہ کیا جن کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا جبکہ مشیر قومی سلامتی معید یوسف اور وزیر داخلہ شیخ رشید سے رابطہ نہ ہو سکا۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد نام نہاد داعش ایسٹ ترکستان موومنٹ کے لوگوں کو ایغور ٹیم کی مدد سے بھرتی کر رہی ہے تاکہ خطے میں اپنی موجودگی کو بڑھا سکے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ افغانستان کے صوبہ قندوز کی ایک مسجد میں دھماکے میں سنگیانک کا ایغور جنگجو ملوث تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ایسٹ ترکستان موومنٹ کے دو سو سے سات سو جنگجو طالبان حکومت کے آنے کے بعد افغانستان کے صوبہ بدخشاں، جہاں پر یہ گروپ فعال تھا، سے چین کے ساتھ سرحدی صوبوں بغلان اور تخار میں آ گئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایسٹ ترکستان موومنٹ نے طالبان کی افغانستان میں حکومت کو نیک شگون قرار دیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ طالبان حکومت کی وجہ سے ان پر سے ’دہشت گرد تنظیم‘ کا لیبل ختم ہوجائے گا اور شاید ان کو افغانستان کی شہریت بھی مل جائے۔
سیکورٹی کونسل کی رپورٹ میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی ) کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے تین سے پانچ ہزار سے زائد جنگجو موجود ہیں۔ تاہم ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کی بات چیت کی وجہ سے پاکستان میں حملے کم کیے ہے۔
اسی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس حوالے سے بھی بات چیت جاری ہے کہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے خاندان پاکستان میں اپنے علاقوں کو جا کر پرامن رہیں گے۔
رپورٹ میں افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی کے بارے میں بتایا گیا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد شاید القاعدہ مزید افغانسان میں فعال ہوجائے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ طالبان حکومت کے بعض سینیئر عہدے دار القاعدہ کے ساتھ ہمدردیاں رکھتے ہیں۔
رسول داوڑ شدت پسند تنظیموں پر نظر رکھنے والے صحافی ہیں اور وہ ماضی مں شدت پسند تنظیموں کے سربراہ کے انٹریو بھی کر چکے ہیں۔
انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ رپورٹ میں جس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے وہ حقیقت سے دور ہے کیونکہ ٹی ٹی پی کا ایک واضح موقف ہے کہ وہ پاکستان کے علاوہ کسی بھی ملک کے ساتھ جنگ کرنا نہیں چاہتے اور نہ ان کے معاملات میں دخل اندازی کرنے کے خواہاں ہیں۔
رسول داوڑ نے بتایا کہ ’ٹی ٹی پی نے آج تک پاکستان میں چین کے کسی بھی ہدف پر حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ حال ہی میں خیبر پختونخوا میں داسو ہائیڈرو واٹر پراجیکٹ میں چین کے انجینیئرز پر حملے کی ذمہ داری بھی ٹی ٹی پی نے قبول نہیں کی تھی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ٹی ٹی پی نے چین کو ایک خط کے ذریعے بتایا تھا کہ وہ دیگر ممالک کے ساتھ ٹی ٹی پی کے خلاف محاذ نہ کھولیں کیونکہ ٹی ٹی پی کا چین کے کسی ہدف پر حملے کا نہ پہلے ارادہ تھا اور نہ ہے کیونکہ ٹی ٹی پی کی جنگ صرف پاکستانی حکومت کے ساتھ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سیکورٹی کونسل کے رپورٹ میں ایسٹ ترکستان موومنٹ کا ذکر ہے اور ساتھ میں تاجکستان کا بھی، تو ہوسکتا ہے کہ ایسٹ ترکستان موومنٹ والے تاجسکتان میں کارروائیوں کا ارادہ رکھتے ہوں۔
’تاہم جہاں تک بات ٹی ٹی پی کی ہے، تو ان کا موقف اس حوالے سے واضح ہے کہ وہ پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک کے ساتھ محاذ نہیں کھولنا چاہتے۔‘
داعش خراسان کی افغانستان میں موجودگی
سکیورٹی کونسل کے اس رپورٹ کے مطابق نام نہاد داعش کے پاس 25 سے 50 ملین ڈالرز تک کی رقم موجود ہے اور تنظیم کو فنڈنگ کا سب سے بڑا ذریعہ حوالے سے پیسے بھیجنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق نام نہاد داعش اپنی برانچ داعش خراسان، جو افغانستان میں فعال ہے، کو بھی رقم بھیجتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق نام نہاد داعش نے داعش خراسان کے لیے پانچ لاکھ ڈالرز مختص کیے ہیں اور بین الاقوامی فنانشل سہولت کاروں میں ایک اہم نام عصمت اللہ خلوزئی ہے جنھوں نے داعش خراسان کو 87 ہزار ڈالرز افغانستان بھیجے جبکہ وہ داعش خراسان کے لیے ترکی کے راستے کوریئر بھی بھیجتے رہے۔
’سوشل میڈیا شدت پسندوں کو فنانسنگ کا بڑا ذریعہ‘
رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز شدت پسند تنظیموں کو فنانسنگ کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق افریقہ، مشرقی وسطیٰ اور شمالی وسطیٰ ایشیا کی شدت پسند تنظیمیں سوشل میڈیا پر انسانی ہمدردی کے نام پر چندہ اکھٹا کرتی ہیں۔
رپورٹ میں داعش کے حوالے سے بتایا گیا کہ وہ سوشل میڈیا پر زکوة کے نام پر چندہ اکھٹا کرتی ہے جبکہ یورپ اور مغربی ممالک میں القاعدہ اور داعش بھی اسی طرح اپنی فنانسنگ کا انتظام کرتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ شدت پسند تنظیموں نے کرونا وبا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھرتیوں کا سلسلہ تیز کردیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس ساری صورتحال پر اسلام آباد میں مقیم افغان امور کے ماہر طاہر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چین ہمیشہ شدت پسند تنظیموں کے حوالے سے حساس اور انہیں سنجیدہ لیتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ جب طالبان کی حکومت افغانستان میں آئی تو چین نے طالبان کو ملاقاتوں کے دوران بتایا کہ ایسٹ ترسکتان موومنٹ کو سرحد سے دور رکھا جائے اور ان کو داعش سے بھی دور رکھیں تاکہ یہ چین کے لیے خطرہ نہ بن سکیں۔
طاہر خان نے بتایا، ’ایسٹ ترکستان موومنٹ کی ٹی ٹی پی کے ساتھ رپورٹ میں جو بات کی گئی ہے، یہ درست بھی ہوسکتی ہے کیونکہ ٹی ٹی پی یا جو بھی شدت پند تنظیم ہے، اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے دیگر شدت پسند تنظیموں کے ساتھ تعلقات استوار کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ افغان طالبان کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ کسی بھی شدت پسند تنظیم کے جنگجوؤں کو کسی دوسرے ملک کے حوالے کریں، تاہم طالبان نے دیگر ممالک کو بتایا ہے کہ وہ شدت پسند تنظیموں کے معاملے کا سیاسی حل نکالیں گے۔
’پاکستان میں چین کے اہداف پر ماضی میں بھی حملے ہو چکے ہیں گو کہ ٹی ٹی پی نے ان کی ذمہ داریاں قبول نہیں کیں لیکن شاید وہ کسی مقصد کی وجہ سے ایسا نہیں کرتے۔ اب سیکورٹی کونسل کی رپورٹ آئی ہے تو دنیا کے ممالک اس رپورٹ کو سنجیدہ لیں گے۔‘
افغان طالبان کا موقف
افغان طالبان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ وہ کسی بھی تنظیم کو ہرگز اجازت نہیں دیں گے کہ وہ افغانستان کی زمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کریں۔
طالبان نے حکومت سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں اسی موقف کو ایک بار پھر دہرایا تھا۔
حالیہ دنوں میں پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف کے افغانستان دورے کے دوران بھی افغان حکومت نے پاکستان کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔