کراچی کے علاقے کلفٹن میں عبداللہ شاہ غازی مزار کے قریب ایک سڑک پر سلور رنگ کی گاڑی گذشتہ ایک برس سے کھڑی ہے، جس میں دو خواتین رہائش پذیر ہیں اور ان کا اوڑھنا بچھونا اسی گاڑی میں ہے۔
شمائلہ شیخ اور ان کی والدہ گل ناز چھ مئی، 2020 سے اس گاڑی میں رہ رہی ہیں۔ شمائلہ کے والد حیات نہیں۔
وہ اس سے قبل کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں واقع اپارٹمنٹس میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتی تھیں۔ اس سے پہلے کچھ عرصہ وہ دبئی میں بھی رہ چکی ہیں۔
تاہم کراچی میں کرونا (کورونا) وبا کے باعث ہونے والے پہلے لاک ڈاؤن کے دوران شمائلہ اور ان کی والدہ کو زبردستی گھر سے بے دخل کردیا گیا، جس کے بعد سے دونوں ماں بیٹی سڑک پر آگئیں۔
شمائلہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ والدہ کے ساتھ گاڑی میں رہنا بہت مشکل ہے۔
’یہ چھوٹی گاڑی ہے تو اس میں پیر پھیلانے تک کی جگہ تک نہیں ہوتی۔ ہمیں عبداللہ شاہ غازی مزار کے لنگر میں تقسیم ہونے والا جو بھی کھانا ملتا ہے وہ کھا لیتے ہیں اور 24 گھنٹے میں ایک بار مزار میں جاکر واش روم استعمال کرتے ہیں۔‘
شمائلہ کی والدہ گل ناز ایک گاڑی سے ٹکر لگنے کے بعد معذور ہوگئی ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’ہم یہاں سے قبل (کراچی کے سٹیڈیم روڈ پر واقع) آغا خان ہسپتال کی پارکنگ میں چھپ کر رہ رہے تھے، لیکن وہاں سے نکالے جانے کے بعد اب ہم مزار کے سامنے والی سڑک پر رہ رہے ہیں۔‘
شمائلہ حافظ قرآن ہیں اور انہوں نے صحافت کے شعبے میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ انہوں نے بتایا: ’میری گاڑی میں ہمیشہ قرآن ضرور موجود ہوتا ہے، جسے میں روز پڑھتی ہوں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میں انسانی حقوق کے موضوع پر کافی کام کرچکی ہوں۔ آج بھی میں، گھروں سے بھاگے ہوئے بچوں کو نہ صرف تعلیم فراہم کرتی ہوں بلکہ انہیں سمجھا کر ان کے گھروں پر واپس بھیجتی ہوں۔
’مگر اس سب کے باوجود میرے پاس نہ کام ہے نہ کمانے کا کوئی ذریعہ۔ میرے تمام ضروری کاغذات اور دستاویزات میرے گھر پر رہ گئے تھے جب ہمیں زبردستی نکالا گیا تھا۔‘
گاڑی میں رہنے کی وجہ بتاتے ہوئے شمائلہ کا کہنا تھا: ’میں اور میری والدہ گھر میں سو رہے تھے کہ 10 سے 15 مرد اور خواتین ہمارے مکان کا دروازہ توڑ کر زبردستی اندر داخل ہوگئے۔
’انہوں نے مجھ پر مٹی کا تیل ڈالا اور جلانے کی دھمکی دی۔ میں گھر سے نکلنا نہیں چاہتی تھی، مگر انہوں نے مجھے اور میری والدہ کو گھر سے مار مار کے باہر نکال دیا۔‘
بقول شمائلہ: ’کوئی ہمیں بچانے نہیں آیا۔ میں نے تھانے میں ایف آئی آر بھی درج کروانا چاہی لیکن ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی۔
’کافی کوششوں کے بعد میری امی کے نام پر ایف آئی آر کٹی لیکن ابھی تک اس پر کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔ میں اپنا کیس لڑتے لڑتے سب کچھ ہار چکی ہوں۔‘
’شمائلہ اور ان کی والدہ کو کرائے کی عدم ادائیگی پر نکالا گیا‘
شمائلہ گلستان جوہر میں واقع جس کرائے کے فلیٹ میں رہائش پذیر تھیں۔ اس رہائشی عمارت کی یونین کے رکن ذوالفقار علی نے بتایا کہ ’کرائے کی عدم ادائیگی کے باعث شمائلہ کو مالک مکان کے ہمراہ کچھ مرد اور خواتین نے زبردستی فلیٹ سے نکالا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’شمائلہ کافی عرصے سے مالی مسائل کے باعث نہ گھر کا کرایہ دے پا رہی تھیں، نہ بجلی، گیس اور پانی کے بل اور نہ ہی بلڈنگ کی مینٹیننس کے پیسے، جو اس وقت 1650 روپے ماہانہ تھے۔
’اگر ایسے معاملات ہوتے ہیں تو کرائے دار کو فلیٹ خالی کرنا ہوتا ہے مگر تقریباً دو سال سے یہ معاملہ چل رہا تھا اور پھر آخر میں انہیں مالک مکان نے یہاں سے زبردستی نکلوایا۔‘
ذوالفقار نے مزید بتایا کہ آج بھی وہ فلیٹ بند ہے اور یہاں کوئی نہیں رہ رہا۔ اس فلیٹ میں صرف مالک مکان کا سامان موجود ہے۔
’شمائلہ اور ان کی والدہ جس دن یہاں سے گئی تھیں، اس کے کچھ وقت بعد ہی ایک بڑے ٹرک میں ان کا سارا سامان لوڈ کر کے اورنگی ٹاؤن روانہ کر دیا گیا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اس دن بہت تیز بارش بھی ہو رہی تھی۔‘
شمائلہ کی والدہ گل ناز نے سات ستمبر 2020 کو کراچی کے سچل تھانے میں مالک مکان کے علاوہ دیگر نو افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی تھی، تاہم یہ معاملہ ملیر کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
شمائلہ اور ان کی والدہ کی گاڑی کے تمام دروازوں کے شیشے کپڑوں سے ڈھکے ہوئے ہیں جبکہ گاڑی کی ونڈ شیلڈ پر اندر سے چٹائی لگا کر اسے بھی بند کیا گیا ہے۔
ان کہ مطابق یہ اس لیے کیا ہے تاکہ لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس گاڑی میں دو خواتین رہ رہی ہیں۔ شمائلہ کے مطابق انہیں اور ان کی والدہ کو رات کے وقت سب سے زیادہ ڈر لگتا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’امی اور میں رات بھر گاڑی میں ڈرتے رہتے ہیں۔ ہمیں ہر آہٹ پر ڈر لگتا ہے۔ شام آٹھ بجے کے بعد میں اور امی گاڑی سے باہر نہیں نکلتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں گاڑی کے شیشے ڈھک کر رکھتی ہوں کیوں کہ جب مرد دیکھتے ہیں کہ گاڑی میں عورتیں ہیں تو وہ گاڑی کے قریب آتے ہیں، اکثر گاڑی پر پتھر بھی مارتے ہیں۔
’کچھ دن پہلے رات کے ڈھائی بجے کچھ مرد آئے اور کہنے لگے کہ نوکری چاہیے تو گاڑی کا شیشہ نیچے کرو، گاڑی سے باہر نکلو، ہمارے ساتھ آؤ۔ مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔‘
شمائلہ اور ان کی والده مردوں جیسی شلوار قمیص پہننے پر مجبور ہیں۔ ان کی والدہ گل ناز نے بتایا: ’میں نے مردانہ شلوار قمیص پہنا ہوا ہے کیوں کہ یہاں خواتین کے کپڑے نہیں ملتے جبکہ مردانہ کپڑے سستے مل جاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’میں کسی شیلٹر ہوم یا ایدھی سینٹر نہیں جانا چاہتی اور نہ ہی اپنی والدہ کو بھیجنا چاہتی ہوں۔
’مجھے میرا گھر واپس چاہیے۔ میرے رشتے داروں نے بھی مجھے چھوڑ دیا ہے۔ مجھے سر چھپانے کے لیے اپنی چھت واپس چاہیے۔‘