صوبہ خیبرپختونخوا کے مردان ضلع میں ایک والد کو اپنی بیاہی بیٹی کے قاتل کی تلاش سات سال سے ہے۔ اس کا دعوی مقتولہ کے شوہر پر ہے لیکن اسے بھی ایک عدالت نے بری کر دیا۔ انصاف کے لیے وہ در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے لیکن قاتلوں کو سزا کا کوئی نام و نشان نہیں۔
رستم علاقے کے گوہر علی نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کو بتایا جائے کہ ان کی بیٹی کو مبینہ طور پر سسرال میں قتل کس نے کیا ہے تاکہ اسے ذہنی سکون مل سکے۔
اس پریشان پینسٹھ سالہ والد کا کہنا ہے کہ ان کا داماد تین سال مفرور اور ڈھائی سال جیل میں گزارنے کے بعد بھی عدالت سے بری کر دیا گیا ہے تو اگر وہ قاتل نہیں تو کون ہے، اسے کس نے قتل کیا ہے؟
گوہر علی نے مردان پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سات سال قبل ان کے داماد ملزم لائق خان نے ان کی حافظ قرآن بیٹی نیلم بی بی کو عید کے دوسرے دن اپنے کمسن بچے کے سامنے معمولی تکرار پر مبینہ طور پر قتل کر دیا اور بعد میں ملزم دبئی فرار ہوگیا جہاں سے اسے انٹرپول کے ذریعے گرفتار کیا گیا مگر حوالگی کے کاغذات نہ پہنچنے پر دبئی حکام نے اسے رہا کر دیا اور بعد میں وہ دبئی سے آذربائیجان چلاگیا۔
وہاں سے ملزم کو انٹرپول کے ذریعے لایاگیا اور مردان ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں ٹرائل شروع ہوا اور ڈھائی سال کی کارروائی کے دوران پولیس تفتیشی افسر نے بھی تمام ثبوت عدالت میں پیش کیے لیکن گذشتہ روز عدالت نے عدم ثبوت کے بنا پر انہیں بری کر دیا۔
مقتولہ کے باپ گوہر علی کے مطابق 25ستمبر 2015 کو نیلم بی بی اس وقت اپنے گھر میں موجود تھیں اور انہیں ان کے کمرے میں ہی کسی نے پستول سے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ پولیس رپورٹ میں بھی درج ہے کہ نیلم بی بی شوہر کے کمرے میں مردہ پائی گئی تھیں۔
گوہر علی کے ہمراہ مقتولہ خاتون کے دو کم سن بچے عالیان اور فرحان بھی موجود تھے۔ ان کے نانا نے کہا کہ عدالتی فیصلہ سر آنکھوں پر لیکن ان کا سوال یہ ہے کہ ان کی بیٹی کو دن دیہاڑے شوہر کے مکان میں اپنے کمرے میں کس نے قتل کیا؟ ’اگر میری بیٹی کا قاتل کوئی اور ہے تو شوہر اور ان کے گھر والوں کی طرف سے قتل کا مقدمہ کیوں درج نہیں کیا گیا، شوہر جنازے میں کیوں شریک نہیں ہوئے اور وہ تین سال مفرور کیوں رہا؟ انہوں نے کہا کہ انصاف دلانے والے ادارے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دیں تو علاقے کا ہر شخص اس بچی کی پاک دامنی کی گواہی دے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس مقدمے میں ان کی بیٹی کا خون ناحق ہوا اور دوسری طرف سات سال تک اپنے دوکم سن نواسوں کو ان کی ماں کے قاتل کوسزا دلانے کے لیے انتھک کوشش کی لیکن فیصلہ ان کے حق میں نہیں آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت چشم دید گواہ مانگتی ہے جبکہ ملزم کے گھر والے قتل کے چشم دیدگواہ ہیں اور وہ اپنے خلاف گواہ تو نہیں دے سکتے تھے۔
گوہر علی نے پاکستان کے وزیراعظم، وزیر اعلی خیبرپختونخوا اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں سے انصاف کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ان کی بیٹی تو ناحق قتل کیا گیا لیکن اگر قاتل کو اس طرح ریلیف ملتا رہا تو آئے روز بچیوں کو بےدردی سے قتل کر دیا جائے گا۔
عارف رسول ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایڈیشنل سیشن جج کےعدالت میں مقتولہ کے سات سالہ بیٹے عالیان کو چشم گواہ کے طور پر پیش کیا گیا لیکن پولیس نے تفتیش کے دوران عالیان سے وقت پر بیان ریکارڈ نہیں کیا تھا۔ انہوں نے کہا ملزم کے خلاف انہوں نے قتل کے دیگر شواہد بھی پیش کیے جبکہ ملزم کی نشاندہی پر اس کے کمرے سے پستول بھی برآمد ہوا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وکیل صفائی یوسف شاہ مہمند نے بتایا کہ ان کے موکل لائق خان کا موقف تھا کہ وہ اس وقت گھر میں موجود نہیں تھے اور وہ قاتل نہیں ہیں۔ ’اس کے موبائل سی ڈی آر سے بھی ثابت ہوا تھا کہ وہ اس وقت گھر میں نہیں تھے جس کی وجہ سے عدالت نے انہیں ریلف دے کر بری کر دیا۔‘
سینیئر صحافی اور مقتولہ کے ماموں ڈاکٹر اشرف علی نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ سرآنکھوں پر لیکن اس فیصلے سے یہ سوال ذہن میں پیداہوتا ہے کہ شوہر کے کمرے کے اندر پھر اس خاتون کو قتل کس نے کیا اور اس کے شوہر نے قاتل کے خلاف مقدمہ کیوں درج نہیں کیا۔
ڈاکٹر اشرف علی نے کہا کہ معاشرے میں گھروں میں خواتین پر تشدد اورگھریلو جھگڑوں پر خواتین کو قتل کیا جاتا ہے جس کے بعد وہ یا تو رپورٹ نہیں ہوتے اور اگر رپورٹ بھی ہو جائیں تو قاتلوں کو عدالتوں سے ریلیف مل جاتا ہے کیونکہ عدالت چشم دید گواہ مانگتی ہے اورگھر کے اندرقتل کا چشم دید گواہ وہی گھر والے ہوسکتے ہیں۔
سینیئر صحافی ڈاکٹراشرف نے کہا کہ مقدمہ مردان کی ایڈیشنل سیشن جج کے عدالت میں اس طرح سنایا گیا کہ وہ پانچ گھنٹے تک عدالت کے باہر انتظار کرتے رہے اور جب انہیں بلایا گیا تو صرف دو انچ کاغذ تھما دیاگیا اور حکم دیاگیا کہ اس کاغذ کو عدالت کے باہر دیکھنا ہے جس پر لکھا تھا کہ عدالت نے ملزم کو بری کر دیا ہے۔ ’پانچ دن بعد تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد پتہ چلا کہ عدم ثبوت پر عدالت نے ملزم کو ریلف دیا ہے۔‘
خاتون سوشل ایکٹویسٹ اور غیرسرکاری تنظیم عکس کی پروگرام مینیجر شائستہ یاسمین نے اس موقع پر کہا کہ وہ دو دھائیوں سے میڈیا سینٹر میں خواتین پر تشدد کے کیسز کو مانیٹر کرتی آ رہی ہیں جس میں خواتین پر تشدد کے کیسز بڑھتے جا رہے ہیں اور اکثر واقعات میں غیرت کا صیغہ لگا کر معاشرے میں مزید منفی سوچ کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ ’اسے ذاتی معاملے کا نام دے کر مسئلے کو ختم کر دیا جاتا ہے۔‘
شائستہ نے کہا کہ لڑکی کے ماں باپ اکثر شادی بیاہ کے بعد بچیوں کو پوچھتے تک نہیں اور نہ رشتے کے دوران کوئی خیال کیا جاتا ہے جس کے بعد لڑکیوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس قسم معاملات میں ریاست مدعی بن جاتا ہے لیکن قانون تو بن گیا ہے اس پر عمل نہیں ہو رہا اور لوگ صلح صفائی کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بچیوں کا قتل مزاق بن گیا ہے اور ابھی تو غیرت کے نام پر کرونا وبا کے دوران بچیوں کو قتل کر کے کرونا سے موت قرار دیا جاتا ہے۔
خاتون سوشل ورکر شائستہ نے کہا کہ خیبرپختونخوا کی حکومت نے کئی سالوں سے خواتین پرگھریلو تشدد کے حوالے سے قانون کو ابھی تک پاس نہ کرسکے اوراگر ملک کے نصف آبادی کوتحفظ دینا ہے تو حکومت کو چاہیے کہ خواتین کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین پر عمل داری کو یقینی بنایا جائے۔