مصر میں ایک شخص نے مبینہ طور پر جائیداد ہتھیانے کے لیے اپنی ہی بیوی کو مردہ قرار دے کر اس کا موت کا سرٹیفکیٹ بنوایا اور اسے ایک کمرے میں بند کرکے مسلسل چار سال تک تشدد کا نشانہ بنایا۔
العربیہ اردو کے مطابق یہ واقعہ مصر کے شہر جیزہ گورنری میں پیش آیا، جہاں ایک شخص نے اپنی بیوی کو چار سال تک ایک کمرے میں قید رکھا اور اس کی وراثت پر قبضہ کرنے کے لیے اسے مارا پیٹا۔
سکیورٹی فورسز کو اطلاع ملی تھی کہ مذکورہ شخص نے اپنی بیوی کو جیزہ گورنری کے علاقے حوامدیہ کے ایک مکان میں قید کر رکھا ہے۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ خاتون کے شوہر ایک سرکاری مرکز میں کام کرتے ہیں۔
سکیورٹی فورسز نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ملزم نے اپنی بیوی کا جعلی موت کا سرٹیفکیٹ بنوایا اور وراثت پر قبضہ کرنے کے لیے ان کی موت کا دعویٰ کیا۔
ان انکشافات کے بعد جیزہ سکیورٹی ڈائریکٹوریٹ کے حکام نے ملزم کو گرفتار کرکے تفتیش کے لیے بھیج دیا اور ان کی بیوی کو قید سے آزاد کرا لیا۔
اذیت، قید اور جعل سازی
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رہائی پانے والی خاتون نے پولیس کو ریکارڈ کروائے گئے اپنے بیان میں بتایا کہ ان کے شوہر نے ان پر حملہ بھی کیا، جس سے ان کے جسم پر مختلف زخم آئے۔
بیان کے مطابق خاتون کے شوہر نے ان کے بال بھی کاٹ ڈالے اور انہیں اعصابی آرام اور سکون کی دوائیاں دیں۔ ملزم نے خاتون کو زبردستی گھر کے ایک کمرے میں بند کر دیا اور ان کے لیے موت کا سرٹیفکیٹ جاری کروایا تاکہ وہ ان کی بہنوں سے ان کی میراث چھین سکے۔
سکیورٹی سروسز نے واقعے کی رپورٹ جاری کی، جس کے بعد پبلک پراسیکیوشن آفس نے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
فتوے پر بحث
مصرکی پارلیمنٹ میں مذہبی امور اور اوقاف کمیٹی کے اراکین نے ’محنت اور کمائی‘ کے بارے میں شیخ الازہر کے فتوے کے حوالے سے حال ہی میں میڈیا میں سامنے آنے والی باتوں کا جواب دینے کے لیے ایک رپورٹ تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ دوسری طرف عوامی اور ابلاغی حلقوں میں بھی شیخ الازہر کا فتویٰ زیر بحث ہے۔
کمیٹی کے ارکان نے اس بات پر زور دیا کہ متنازعہ معاملہ یہ ہے کہ فتویٰ اس بات پر جاری کیا گیا تھا کہ یہ سی عورت کو جائیداد کی وراثت کا نصف حصہ حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ حصہ شوہر کے ساتھ اس کے تعلق کی وجہ سے اس کی میراث میں سے ملنے والے ترکے کے علاوہ ہے، جس وہ شوہر سے وراثت میں جائز حق رکھتی ہے، مگر یہ فتویٰ شوہر کی کمائی میں بیوی کی حصے داری کی وجہ سے ہے، جسے محنت اور کمائی کا نام دیا گیا ہے۔
کمیٹی نے واضح کیا کہ خواتین کو بااختیار بنانے کے عمل سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن یہ اسلام کے خواتین کی عزت اور ان کے مکمل حقوق حاصل کرنے پر زور دینے کے دائرے میں آتا ہے۔