یوکرین کی ایمرجنسی سروسز کا کہنا ہے کہ دارالحکومت کیئف میں مرکزی ٹیلی ویژن ٹاور پر روس کے مزائل حملے کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک جبکہ پانچ زخمی ہوئے ہیں۔
حکام کے مطابق سرکاری ٹی وی کی کچھ نشریات بند ہو گئیں مگر نشریاتی ڈھانچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔
خبر رساں اے ایف پی کے مطابق منگل کو شہر میں دھماکے کی آواز سنی گئی جس کے بعد بابی یار کے علاقے میں دھواں اٹھتا دیکھا گیا۔
یوکرین کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ نشریاتی آلات کو نقصان پہنچا ہے اور ٹیلی ویژن چینلز کچھ دیر کے لیے کام نہیں کریں گے۔
وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کی گئی تصویر میں نشریاتی ٹاور کے ایک حصے سے دھواں اٹھتے ہوئے دیکھا گیا۔ تاہم اس منظر کو دیکھنے والے اے ایف پی کے صحافی دیکھ سکتے تھے کہ اب بھی ٹاور اپنی جگہ کھڑا تھا۔ وزارت داخلہ کے مطابق نشریات بحال کرنے کے لیے بیک اپ نظام کو استعمال میں لایا جائے گا۔
اس سے پہلے روسی وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا تھا کہ روسی فوج ’روس پر معلومات کے حملے روکنے کے لیے‘ کیئف میں ٹیکنالوجی کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنائے گی۔
روسی فوج نے مشرقی یوکرین کے شہروں پر حملے کرنے کے ساتھ ساتھ دارالحکومت کیئف کے قریب بکتر بند گاڑیاں اور توپیں جمع کرنی شروع کر دی ہیں۔
دوسری جانب مغربی ممالک نے روسی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لیے مزید پابندیاں لگانے کا عہد کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یوکرین پر روسی حملے کے چھٹے روز ملک کے دوسرے بڑے شہر خارکیو میں حکام کا کہنا ہے کہ روسی فوج نے مقامی انتظامیہ کے دفاتر پر گولہ باری کی ہے۔
اے ایف پی کے رپورٹر نے دیکھا کہ عمارتوں کی کھڑکیاں ٹوٹ کر گر گئیں اور ہر طرف ملبہ پھیل گیا۔ بحر ازوف کے کنارے پر واقع شہر ماریوپول میں مقامی حکام کا کہنا ہے کہ بمباری کے بعد شہر میں بجلی بند ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق بحیرہ اسود کے قریب واقع شہر خیرسن کے داخلی راستوں پر روسی فوج نے چوکیاں قائم کر دی ہیں۔
یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی کے ایک مشیر نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’بالآخر نقاب اتر گیا۔ روس شہری مراکز پر تیزی سے گولہ باری کر رہا ہے، رہائشی علاقوں اور سرکاری عمارتوں پر براہ راست میزائل اور گولے داغے جا رہے ہیں۔‘
مشیر میخیلوپودولیاک نے ٹویٹ میں کہا کہ ’روس کا مقصد واضح ہے۔ بڑے پیمانے پر خوف پھیلانا، شہریوں کو نشانہ بنانا اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی۔ یوکرین بہادری سے مقابلہ کر رہا ہے۔‘
واضح رہے کہ روسی حملے کے نتیجے میں اب تک ساڑھے تین سو شہری ہلاک ہو چکے ہیں اور لاکھوں یوکرینی شہری ہمسایہ ملکوں میں چلے گئے ہیں۔
اسلام آباد میں تعینات یوكرین كے سفیر ماركیان چوچوک نے منگل کو امید ظاہر كی ہے كہ پاكستان گذشتہ ہفتے شروع ہونے والی روس اور یوكرین كی جنگ سے متعلق اپنے موقف میں تبدیلی لاتے ہوئے زیادہ سرگرم اور موثر كردار ادا كرے گا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو كرتے ہوئے انہوں نے كہا كہ پاكستان روس اور یوكرین كے درمیان جنگ سے متعلق غیر جانبدار رہ رہا ہے۔
ان کے مطابق: ’ہم امید كرتے ہیں كہ ایک دن پاكستان اپنا موقف تبدیل كرے گا اور اس معاملہ میں زیادہ سرگرم پوزیشن اختیار كرے گا۔‘
اس سوال كے جواب میں كہ پاكستان یوكرین پر روسی حملے كو روسی جارحیت كے بجائے دونوں ملكوں كے درمیان ایک تنازع قرار دیتا ہے، ماركیان چوچوک نے كہا كہ اس سے فرق نہیں پڑتا كہ کوئی ملک اس جنگ كو كیا كہہ كر پكارتا ہے لیكن روس اور یوكرین كے درمیان ہر پیمانے سے ایک ’فل سكیل‘ جنگ ہو رہی ہے۔
ان کے مطابق: ’روس نے یوكرین پر چڑھائی كی ہے اور روسی فوجیں ہمارے لوگوں كو مار رہی ہیں۔‘
یوكرینی سفیر ماركیان چوچوک نے امید ظاہر كی كہ پاكستان امن اور تنازعات كے حل كے لیے سفارتی طریقوں كی حمایت اور اس جنگ كی مذمت كرے گا۔
اس سے قبل اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر پریس كانفرنس سے خطاب كرتے ہوئے ماركیان چوچوک نے كہا كہ روس نے یوكرین كے خلاف جارحیت كی ہے اور اس كی فوجیں پورے ملک میں معصوم شہریوں كا قتل عام كر رہی ہیں۔
انہوں نے دنیا سے روس پر فوری اور زیادہ پابندیاں لگانے كا مطالبہ كرتے ہوئے كہا کہ دنیا كے ممالک ماسكو كے لیے اپنے فضائی راستوں، پانیوں اور تجارت پر پابندی لگا دیں۔
انہوں نے دنیا كے ان ممالک كا شكریہ ادا كیا جنہوں نے روس پر پابندیاں لگائی ہیں جبكہ یورپین یونین نے گذشتہ ہفتے روس پر پابندیاں لگانے كے علاوہ یوكرین كو مدد بھی فراہم كی تھی۔
ماركیان چوچوک نے مزید كہا كہ یورپین یونین اور اقوام متدہ كو روس پر مزید پابندیاں عائد كرنی چاہییں۔
یوكرینی سفیر نے جنگ کے پرامن حل كی ضرورت پر زور دیتے ہوئے كہا كہ دنیا كو روس پر بات چیت اور جنگ كے خاتمے كے لیے دباؤ میں اضافہ كرنا چاہیے۔
ماركیان چوچوک نے كہا كہ یوكرین نے گذشتہ سال پاكستان كو 100 ملین میٹرک ٹن سے زیادہ گندم دی تھی جس سے پاكستان كی معیشت اور لوگوں كو مدد فراہم ہوئی۔
انہوں نے حال ہی میں افغانستان سے یوكرینی باشندوں كے انخلا میں پاكستان كے كردار اور مدد كو سراہتے ہوئے كہا كہ یوكرین میں موجود پاكستانی شہریوں كو وہاں سے نكلنے كے مواقع فراہم كرنا یوكرینی حكومت كی ترجیحات میں شامل ہے۔
انہوں نے كہا كہ یوكرین سے پاكستانی طالب علموں كے انخلا سے متعلق دونوں ملكوں كے وزرائے خارجہ مستقل رابطے میں ہیں۔
انہوں نے كہا كہ یوكرین پر روسی جارحیت كی مذمت سے مراد انسانی زندگی اور آزادی كی حفاظت ہے اور ساری دنیا كو ایسا كرنا پڑے گا۔
انہوں نے اس موقع پر یوكرینی بچوں كی بنائی ہوئی تصاویر بھی میڈیا دكھائیں۔
پاکستان کا موقف
اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستانی دفتر خارجہ سے رابطہ کیا تو ترجمان عاصم افتخار نے کہا: ’وزیراعظم عمران خان نے دورہ روس کے درمیان یہی موقف اپنایا تھا۔ تنازع کا لفظ سفارتی طور پر استعمال ہوا ہے اور اسے فوجی تنازع کہا گیا ہے اگر بات چیت سے معاملہ حل ہو جاتا تو تنازع یا لڑائی تک نوبت نہ آتی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کو ایک متوازن پوزیشن رکھنی ہے اور موقف یہی ہے کہ یوکرین روس کے درمیان جنگ نہیں ہونی چاہیے جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ بات چیت سے اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کیا جا سکتا ہے۔‘
یوکرینی صدر کا روسی جہازوں پر عالمی پابندی کا مطالبہ
یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے مطالبہ کیا ہے حملہ کرنے کی پاداش میں غیر ملکی ہوائی اڈوں یا بندرگاہوں کا استعمال کرنے والے روسی طیاروں اور بحری جہازوں پر عالمی پابندی عائد کی جائے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انہوں نے فیس بک پر لکھا کہ: ’ہمیں دنیا کے تمام ایئرپورٹس، بندرگاہوں اور نہروں میں اس ملک کے داخلے پر پابندی لگا دینی چاہیے۔‘
انہوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ روسی جہازوں، میزائلز اور ہیلی کاپٹروں کے لیے مکمل خلائی بندش پر غور کرے۔‘
وولودی میرزیلنسکی نے روس پر یہ الزام بھی لگایا کہ اس نے جنگ بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات کے دوران ’دباؤ‘ ڈالنے کے لیے پیر کو یوکرینی علاقے پر ’بمباری اور فائرنگ‘ کی۔
انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں روسیوں سے کہا کہ جہاں تک یوکرین کے رہنماؤں کے خلاف دباؤ ڈالنے کی مہم کا تعلق ہے تو ’اپنا وقت ضائع مت کریں۔‘
پیر کو بات چیت شروع ہونے سے کچھ دیر قبل روس کے صدر ولادی میر پوتن نے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں کے ساتھ ایک فون کال میں جنگ کے خاتمے کے لیے اپنی شرائط پیش کیں۔
ولادی میرپوتن نے کہا کہ یہ تصفیہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب روس کے جائز سلامتی مفادات کو بلامشروط مدنظر رکھا جائے۔ ماسکو نے کہا کہ اس میں کریمیا پر روسی خودمختاری کا اعتراف، یوکرینی ریاست کی فوج کشی اور ان کی غیر جانبدارانہ حیثیت کو یقینی بنانا بھی شامل ہے۔
مذاکرات کے دوران لڑائی جاری رہی اور روسی سرحد کے قریب یوکرین کے دوسرے سب سے بڑے شہر خارکیو میں روسی حملوں میں کم از کم11 افراد ہلاک ہو گئے۔ یوکرین کے مطابق حملے کے دوران 14 بچوں سمیت 350 سے زائد شہری ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ پانچ لاکھ سے زائد ملک سے چھوڑ چکے ہیں۔
روسی افواج نے پیر کے روز یوکرین کے دوسرے سب سے بڑے شہر پر گولہ باری کی اور اس رہائشی علاقے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
سینکڑوں ٹینکوں اور دیگر گاڑیوں کا 40 میل لمبا قافلہ لے کر دارالحکومت کیئف کے قریب آگیا ہے کیوں کہ جنگ روکنے کے لیے ہونے والے مذاکرات میں صرف بات چیت جاری رکھنے کا معاہدہ ہوا ہے۔
خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ملک نے صدر نے کہا ہے کہ گولہ باری میں اضافے کا مقصد انہیں سودے بازی پر مجبور کرنا ہے۔
یوکرین کے صدر نے پیر کو ایک ویڈیو خطاب میں کہا: ’مجھے یقین ہے کہ روس اس سادہ طریقے سے یوکرین پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
انہوں نے گھنٹوں جاری رہنے والی بات چیت کی تفصیلات نہیں بتائیں لیکن کہا ’جب ایک فریق دوسرے کو راکٹوں سے نشانہ بنا رہا ہو‘ ایسے میں یوکرین سودے بازی کے لیے تیار نہیں تھا۔
روسی صدر کے ایک اعلیٰ معاون اور روسی وفد کے سربراہ ولادی میر میڈینسکی نے کہا کہ حملے کے بعد دونوں کے درمیان ہونے والے پہلے مذاکرات تقریبا پانچ گھنٹے تک جاری رہے اور سفارتکاروں کو ’کچھ ایسے نکات ملے ہیں جن پر مشترکہ مؤقف کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ وہ آنے والے دنوں میں بات چیت جاری رکھنے پر متفق ہیں۔
جب بیلاروس کی سرحد پر مذاکرات ختم ہوئے تو یوکرین کے دارالحکومت کیئف میں کئی دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں اور روسی فوجی تقریبا 30 لاکھ آبادی والے شہر کی جانب پیش قدمی کر رہے تھے۔
میکسر ٹیکنالوجیز کی سیٹلائٹ تصاویر کے مطابق بکتر بند گاڑیوں، ٹینکوں، توپ خانے اور معاون گاڑیوں کا وسیع قافلہ شہر کے مرکز سے 17 میل (25 کلومیٹر) دور تھا اور تقریبا 40 میل تک پھیلا ہوا تھا۔
یوکرین کے صدر نے کہا کہ ’روسیوں کے لیے کیئف ایک اہم ہدف رہا رہے۔ پیر کو اسے تین میزائل حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور سیکڑوں غنڈہ گردی کرنے والے شہر میں گھوم رہے تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وہ ہماری قومیت کو توڑنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ دارالحکومت کو مسلسل خطرہ ہے۔‘
پیر کو ہونے والے مذاکرات میں جب یوکرین نے اپنے وزیر دفاع اور دیگر اعلیٰ حکام کو بھیجا تو روسی وفد کی قیادت ولادی میر پوتن کے مشیر برائے ثقافت نے کی۔ جنگ کے خاتمے کے لیے بھیجے جانے والے وفد میں سربراہ کی حیثیت سے ان کی شرکت کا امکان نہیں تھا اور شاید اس بات کا اشارہ تھا کہ روس نے مذاکرات کو کتنی سنجیدگی سے لیا۔
65 کلومیٹر لمبے روسی فوجی قافلے کی کیئف کی جانب پیش قدمی
سیٹلائٹ سے لی گئی نئی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ یوکرین کے دارالحکومت کی طرف جانے والا روسی فوجی گاڑیوں کا قافلہ پہلے لگائے گئے اندازے سے زیادہ لمبا ہے۔
سیٹلائٹ امیجنگ فرم میکسر ٹیکنالوجیز کے مطابق فوجی ہارڈ ویئر کا کالم 65 کلومیٹر (40 میل) سے زیادہ لمبا ہے جو اصل تخمینے سے دوگنا بڑا ہے۔
دی انڈپینڈنٹ کے نامہ نگار لیام جیمز کے مطابق قافلے کی تصویر پیر کو کیئف کے نواح میں انتونوف ہوائی اڈے کے قریب پہنچ کر لی گئی جو روسی حملے کے کئی روز بعد بھی حکومتی کنٹرول میں ہے۔
سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے رکن سینیٹر کرس مرفی نے پیر کو کلاسیفائیڈ انٹیلی جنس بریفنگ کے بعد ٹوئٹر پر خبردار کیا ہے کہ روس کیئف کے ’گھیراو‘ اور آنے والے دنوں میں سخت جارحیت شروع کرنے کی کوشش کرے گا۔
3/ The ability to keep supply lines running to Ukraine remains alive, but Russia will try to encircle and cut off Kiev in the next several weeks. The fight for Kiev will be long and bloody and Ukrainians are rapidly preparing for street to street combat.
— Chris Murphy (@ChrisMurphyCT) March 1, 2022
انہوں نے لکھا کہ روس اگلے چند ہفتوں میں کیئف کو گھیرنے اور باقی ملک سے کاٹنے کی کوشش کرے گا۔ انہوں نے دارالحکومت کے لیے متبادل ہجے استعمال کرتے ہوئے مزید کہا کہ کیئف کے لیے جنگ طویل اور خونریز ہوگی اور یوکرین کے لوگ تیزی سے سڑکوں پر جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔
یورپی یونین نے رکنیت کے لیے یوکرین کی درخواست باضابطہ طور پر رجسٹر کر لی ہے۔
یوکرین کی سرکاری خبررساں ایجنسی یوکرانفارم کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپی یونین میں یوکرین کے مشن کے سربراہ ویسیولود چنتسوف نے ٹوئٹر پر یہ بات کہی ہے۔
چنتسوف نے بتایا کہ انہوں نے یوکرین کے صدر کے دستخط شدہ یورپی یونین کی رکنیت کے لیے یوکرین کی درخواست فرانس کے مستقل نمائندے فلپ لیگلیس کوسٹا کو سونپ دی جو یورپی یونین کی کونسل کی موجودہ صدارت رکھتے ہیں۔
ان کے مطابق ’درخواست رجسٹر ہوچکی ہے۔ عمل شروع کر دیا گیا ہے۔‘
امریکہ کولمبیا مشترکہ فوجی مشقوں میں پہلی بار جوہری آبدوز کا استعمال
خطے میں علاقائی کشیدگی کی وجہ سے امریکہ اور کولمبیا نے اعلان کیا ہے بحیرہ کیریبین میں مشترکہ فوجی مشقوں میں پہلی بار ایک جوہری آبدوز حصہ لے رہی ہے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رواں ماہ کے اوائل میں کولمبیا نے روس پر وینزویلا کے ساتھ اپنی سرحد پر’غیر ملکی مداخلت‘ کا الزام لگایا تھا جہاں بائیں بازو کے دو گوریلا گروہ منشیات کی اسمگلنگ کے منافع بخش راستوں پر قابو پانے کے لیے خونریز جنگ لڑ رہے ہیں۔
روس نے کولمبیا کے ان دعوؤں کو مسترد کیا ہے۔ ماسکو نے وینزویلا پر الزام لگایا کہ وہ اپنی سرزمین پر مسلح باغیوں کو پناہ دیتا ہے۔ کولمبیا کے وزیر دفاع ڈیاگو مولانو نے کہا کہ یہ مشقیں منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف جنگ کو تقویت اور ’قومی خودمختاری‘ کو تحفظ فراہم کریں گی۔
پیر کو جاری ہونے والے ایک ویڈیو بیان میں ڈیاگو مولانو نے کہا کہ پہلی بار امریکی جوہری آبدوز نے کولمبیا کے بحیرہ کریبین میں ہونے والی مشترکہ فوجی مشقوں میں حصہ لیا ہے۔
مشقیں اتوار کو شروع ہوئیں لیکن کولمبیا کے وزیر دفاع نے اس بات کا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ کب تک جاری رہیں گے اور کتنے امریکی فوجی اس میں شریک ہیں۔
اس خبر کے ردعمل میں وینزویلا نے غصے کا اظہار کیا ہے۔
وینزویلا کے وزیر دفاع جنرل ولادی میر پیدرینو نے ٹوئٹر پر کہا کہ :’کیا یہ امریکی بحیرہ روم میں نیٹو کی توسیع کا اشارہ ہے؟‘
ان کے مطابق منشیات کی اسمگلنگ، (کولمبیا کے علاقے) آروکا میں جنگ، منظم قتل اور دہشت گرد گروہوں کا مقابلہ جوہری آبدوزوں سے نہیں کیا جا سکتا۔
کولمبیا کے وزیر دفاع ڈیاگو مولانو نے تین فروری کو دعوی کیا تھا کہ وینزویلا کے فوجی یونٹوں کو ’روس کی حمایت اور تکنیکی طاقت کے ساتھ سرحد پر تعینات کیا گیا ہے۔‘
روس نے ان دعووں کو مسترد کیا ہے۔ گذشتہ سال مئی میں حکومت مخالف غیر معمولی مظاہروں کے دوران کولمبیا نے روس پر سرکاری ویب سائٹس کے خلاف سائبر حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔
ماسکو نے ان دعووں کو بھی مسترد کردیا تھا۔ دسمبر میں روسی نائب وزیر خارجہ سرگے ریابکوف نے دھمکی دی تھی کہ اگر نیٹو کے معاملے پر یوکرین کے ساتھ معاملہ نہ سلجھا تو وہ اتحادیوں وینزویلا یا کیوبا میں فوج بھیج دیں گے۔
کولمبیا لاطینی امریکہ میں نیٹو کا واحد اسٹریٹیجک شراکت دار ہے اور امریکہ کا قریبی اتحادی بھی ہے۔
روس نیٹو سے اس ضمانت کا مطالبہ کر رہا تھا کہ یوکرین کو کبھی بھی اس فوجی اتحاد میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ نیٹو نے انکار کر دیا تھا اور روس نے گذشتہ ہفتے اپنے مغربی ہمسایہ ملک پر حملہ کر دیا تھا۔
مشہور امریکی اداکار رابرٹ ڈی نیرو نے یوکرین پر روسی حملے کے بارے میں کیمبرج یونیورسٹی میں طلبا کے سامنے بات کی ہے۔
یوکرین کی سرکاری نیوز ایجنسی یوکرانفارم نے بی بی سی کے حوالے سے کہا ہے کہ ڈی نیرو سے جب یوکرین کے بارے میں ان کی رائے پوچھی گئی تو انہوں نے کہا: ’آپ کو موقف اختیار کرتے ہوئے کہنا ہوگا کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے، یہ غلط ہے۔ دنیا میں کچھ چیزیں چل رہی ہیں کہ اگر آپ کی آواز ہے اور آپ دیکھتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے تو آپ کو اس بارے میں کچھ کہنے کا حق ہے۔ آپ کو ضروری ہے. آپ کو کرنا پڑے گا۔‘
انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ صرف جمہوریت کی بات نہیں ہے بلکہ یہ صحیح اور غلط کا معملہ ہے۔
ان کے مطابق: ’آپ دیکھ رہے ہیں کہ اب یوکرین میں کیا ہو رہا ہے، آپ کو کہنا ہوگا کہ یہ غلط ہے۔‘
امریکی اداکار نے وہاں موجود طلبہ سے مطالبہ کیا: ’ہمیں اس قسم کی جارحیت کو روکنے کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔‘