روس اور یوکرین کے مابین کشیدگی بڑھ کر جنگ میں تبدیل ہو نے کے بعد سے یورپ اور امریکہ کی جانب سے اسے روسی جارحیت اور حملہ کہا گیا ہے لیکن حکومت پاکستان کا اس پر کیا موقف ہے؟
بھارتی وزارت خارجہ نے تنازع یا جارحیت کے الفاظ استعمال کرنے سے گریز کیا بلکہ آسان الفاظ میں ’روس اور یوکرین کے حالات‘ جیسے الفاظ کا استعمال کیا۔ اور پاکستان نے سفارتی طور پر اسے تنازع کہا ہے۔
اس معاملے پر دفتر خارجہ سے رابطہ کیا گیا تو ترجمان عاصم افتخار نے کہا: ’وزیراعظم عمران خان نے دورہ روس کے درمیان یہی موقف اپنایا تھا۔ تنازع کا لفظ سفارتی طور پر استعمال ہوا ہے اور اسے فوجی تنازع کہا گیا ہے اگر بات چیت سے معاملہ حل ہو جاتا تو تنازع یا لڑائی تک نوبت نہ آتی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کو ایک متوازن پوزیشن رکھنی ہے اور موقف یہی ہے کہ یوکرین روس کے درمیان جنگ نہیں ہونی چاہیے جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ بات چیت سے اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کیا جا سکتا ہے۔‘
پاکستان کشمیر کے معاملے کو بھارتی جارحیت کہتا ہے، فلسطین کے معاملے پر بھی اسرائیلی جارحیت کہا جاتا ہے تو پھر یوکرین کے معاملے میں اسے فریقین کے مابین تنازع کیوں کہا جا رہا ہے؟
اسی سوال کے جواب کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے بین الاقوامی امور اور سفارتی ماہرین سے رابطہ کیا اوران کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کی۔ ماہرین سے سوال کیا گیا کہ پاکستان یوکرین میں جاری بحران کو جارحیت کے بجائے تنازع کہتا ہے اور وہ اس اصطلاح کو اخلاقی اور سفارتی طور پر وہ کیسے دیکھتے ہیں؟
پاکستان کے سابق سفیر جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ ’ہم کشمیر کا یوکرین سے کوئی موازنہ کر ہی نہیں سکتے۔ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کی پوزیشن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں ہے جو بھارت بھی تسلیم کرتا ہے۔ بھارت نے کشمیر میں جارحیت کرکے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کر رکھی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق: ’یوکرین کے معاملے میں یوکرین متنازع ریاست نہیں ہے۔ یوکرین خود مختار ملک ہے جس کی حیثیت تسلیم شدہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ کسی بھی خود مختار ملک پر حملے کا یہ کوئی جواز نہیں۔ ’روس کو یہ سمجھنا ہو گا کہ مسئلے کا حل فوجی نہیں ہے اور یوکرین کو یہ سمجھنا ہو گا کہ انہیں نیٹو کے معاملے پر غیر جانبدار رہنا ہے اور نیٹو کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ یوکرین کے مشرق میں اگر پیش قدمی کرے گا روس اس سے غیر محفوظ محسوس کرے گا جو کہ دنیا کے امن کے لیے درست نہیں۔ لیکن ہر ملک اس وقت اپنے سفارتی تعلقات کے طور پر الفاظ کا چناؤ کرے گا۔‘
رابطہ کرنے پر سابق سفیر آصف درانی نے کہا: ’جب ہم پاکستان میں بیٹھ کر کشمیر میں بھارتی جارحیت پر بات کرتے ہیں تو باقی دنیا تو اس کو جارحیت نہیں کہتی۔ اسی طرح فلسطین کے معاملے پر ہم جارحیت کہتے ہیں لیکن بااثر ممالک اسے جارحیت نہیں کہتے تو سوال یہ ہے کہ اب اگر با اثر ممالک روسی حملے کو جارحیت کہہ رہے ہیں تو ہمیں ان کی تقلید کرنی چاہیے؟‘
انہوں نے کہا کہ امریکہ اور مغربی ممالک کہتے ہیں کہ پاکستان بھارت اپنے مسئلے کو حل کرلیں۔ ’جب مغربی ممالک کشمیر میں بھارت کی جارحیت مان لیں گے تو پاکستان بھی روس یوکرین معاملے پر جارحیت کہہ لیں گے۔‘
سابق سفیر نے کہا کہ یہ مفادات کی جنگ ہے۔ ’ہر ملک اپنے مفاد کے مطابق الفاظ کا چناؤ کرتا ہے۔‘
سابق سفارت کار عاقل ندیم نے بتایا کہ ’ہمیں اس مسئلے میں الجھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ حملہ ہے یا تنازع۔ ہمیں صرف اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جنگی بندی کی طرف دھیان دیا جائے۔‘
ان کے مطابق: ’ہمیں امریکہ روس کے بلاکس کا حصہ بھی نہیں بننا۔ ہمارا اصولی موقف یہی ہے کہ کسی بھی ملک کو دوسرے ملک پر قبضہ نہیں کرنا چاہیے۔‘
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی اپنی ٹویٹ میں روس یوکرین کا معاملے کا ذکر کرتے ہوئے لفظ تنازع استعمال کیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان آج شام قوم سے خطاب کریں گے، وزیر اعظم روس اور یوکرائین تنازعے کے بعد معیشت اور عالمی چیلنجز پر قوم کو اعتماد میں لیں گے
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) February 28, 2022
تنازع یا جارحیت کب کہا جاتا ہے؟
تنازع کا لفظ تب استعمال کیا جاتا ہے جب فریقین کے مابین کسی چیز پر جھگڑا ہو اور دونوں ہی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوں تو اسے ان دونوں کے مابین تنازع کہیں گے۔ تنازع کسی نظریاتی یا زمینی اختلاف پر ہوسکتا ہے۔
جبکہ جارحیت یا اشتعال انگیزی تب کہا جاتا ہے جب کوئی ایک شخص یا ملک اپنے مفاد کے لیے دوسرے شخص یا ملک پر حملہ کرے یا جنگ مسلط کر دے جس کی وجہ سے دوسرے شخص یا ملک کو دفاعی کارروائی کرنی پڑے۔
روس یوکرین معاملہ ہے کیا؟
مشرقی یوکرین میں ڈونبیس کا علاقہ روس اور یوکرین کے درمیان بڑھتے ہوئے بحران میں 90 کی دہائی سے ایک متنازع خطہ رہا ہے۔ اس معاملے نے 21 فروری کو اس وقت مزید نازک حیثیت اختیار کرلی جب روسی صدر ولادی میر پوتن نے وہاں ماسکو کی حمایت یافتہ دو خود ساختہ ’ریاستوں‘ کی آزادی کو تسلیم کیا جو خود کو ’دونیتسک عوامی جمہوریہ‘ اور ’لوہانسک عوامی جمہوریہ‘ کہتی ہیں۔
روس نے اس علاقے میں امن قائم کرنے کا موقف اپناتے ہوئے روسی افواج بھیجنے کا حکم دے دیا جس کے بعد اب یوکرین کے شہری یورپی ممالک میں پناہ لے رہے ہیں جبکہ یوکرینی افواج روسی افواج کا مقابلہ کر رہی ہیں۔
کسی بھی تنازعے میں ہر خومختار ملک اپنی خارجہ پالیسی کے تناظر میں بیانات کے لیے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ یہی الفاظ کا انتخاب اس کی خارجہ پالیسی کی بھی عکاسی کرتا ہے۔