امریکہ نے کہا ہے کہ نئے ایرانی جوہری معاہدے پر ’ممکنہ ڈیل‘ قریب ہے لیکن کئی اہم نکات کی وجہ سے معاہدہ تعطل کا شکار ہے اور اس کے لیے وقت ختم ہو رہا ہے۔
وزارت خارجہ کی نائب ترجمان جالینا پورٹر نے صحافیوں کو بتایا کہ ایران کو ایٹمی بم بنانے سے روکنے کے لیے 2015 کے جوہری معاہدے کو بچانے کے لیے ویانا میں ہونے والے مذاکرات میں سفارت کاروں نے ’اہم پیش رفت‘ کی ہے۔
مذاکرات میں شامل دیگر نے بھی حالیہ ہفتوں میں ایسی باتیں کی ہیں۔ امریکی ترجمان نے کہا: ’ہم ایک ممکنہ معاہدے کے قریب ہیں لیکن کئی مشکل مسائل ابھی بھی حل طلب ہیں۔ ہم اس وقت تک کوئی معاہدہ نہیں کریں گے جب تک کہ ہم بقیہ مسائل کو حل نہیں کر لیتے۔‘
تاہم انہوں نے 2015 کے معاہدے کے حوالے سے کہا: ’اگر ایران سنجیدگی دکھاتا ہے تو ہم چند دنوں کے اندر جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کے مکمل نفاذ کے لیے باہمی واپسی کی مفاہمت تک پہنچ سکتے ہیں اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔‘
مذاکرات کے لیے یورپی یونین کے کوآرڈینیٹر اینریک مورا نے بھی کہا کہ مذاکرات ’آخری مراحل‘ میں ہیں۔
We are at the final stages of the #ViennaTalks on #JCPOA. Some relevant issues are still open and success is never guaranteed in such a complex negotiation. Doing our best in the coordinator's team. But we are definitely not there yet.
— Enrique Mora (@enriquemora_) March 3, 2022
انہوں نے ایک ٹویٹ میں بتایا: ’کچھ متعلقہ مسائل اب بھی حل طلب ہیں اور اس کے لیے کامیابی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم یقینی طور پر ابھی تک وہاں نہیں پہنچے۔‘
جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن سے ایران کو جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے پابندیوں میں نرمی حاصل ہوئی تھیں۔
اس معاہدے پر ایک جانب ایران اور دوسری طرف جرمنی، چین، امریکہ، فرانس، برطانیہ اور روس نے دستخط کیے تھے۔
تاہم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں اسرائیلی مطالبے پر امریکہ کو یک طرفہ طور پر اس معاہدے سے نکال لیا تھا۔ بائیڈن انتطامیہ کئی بار اس معاہدے کی تجدید کی خواہش کا اظہار کر چکی ہے اور واشنگٹن کے نمائندے اس سلسلے میں ایران کے ساتھ ویانا میں بلاواسطہ مذاکرات میں مصروف رہے ہیں۔
امریکہ کا مذاکرات کے حوالے سے یہ تازہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے آئی اے ای اے نے جمعرات کو کہا کہ ایران کے افزودہ یورینیم کا ذخیرہ اب 2015 کے معاہدے میں مقرر کردہ حد سے 15 گنا زیادہ ہو گیا ہے۔
آنے والے دنوں کو مغرب غور سے دیکھ رہا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ جس شرح سے ایران جوہری پیش رفت کر رہا اس سے یہ معاہدہ جلد ہی غیر متعلق ہو سکتا ہے۔
کئی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر رواں ہفتے کے آخر تک کوئی سمجھوتہ نہ کیا گیا تو مغرب مذاکرات کی میز چھوڑ سکتا ہے اور معاہدے کی ناکامی یقینی ہے۔
جن نکات پر مسائل ہیں ان میں تہران کا غیر اعلانیہ مقامات پر جوہری مواد کی موجودگی کے بارے میں آئی اے ای اے کی تحقیقات کو بند کرنے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گراس نے کہا ہے کہ ایجنسی ان مقامات پر جوہری مواد کی ماضی میں موجودگی کو واضح کرنے کے لیے کوششوں کو کبھی ترک نہیں کرے گی۔
گراس ہفتے کو ایرانی کے حکام سے ملاقات کے لیے تہران کا سفر کریں گے۔