صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر (سی پی او) کا عہدہ سنبھالنے والے اعجاز خان نے حال ہی میں پشاور کے تمام تھانوں کو روزنامچوں میں درج واقعات ایف آئی آر میں تبدیل کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں جس کے بعد تھانوں کا عملہ اور متعلقہ حکام اس نئے حکم نامے کی وجہ سے نہ صرف پریشان ہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ ان ہدایات پر عمل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
روزنامچہ جس کو ڈیلی ڈائری بھی کہا جاتا ہے، ایک ایسی کتاب ہے، جس میں ایک تھانے کے روزمرہ کے معمولات وواقعات بشمول تفتیشی افسر / ٹیم کی نقل وحرکت اور حوالات میں قیدیوں کی تعداد و تفصیل وغیرہ درج ہوتی ہے اور اس میں درج واقعات کو شکایات کا درجہ حاصل ہوتا ہے جبکہ ایف آئی آر ایک قانونی کاغذ ہوتا جس کی بنیاد پر مقدمہ قائم عدالتوں میں قائم ہو تا ہے اور سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں۔
پشاور کے مختلف تھانوں کے سٹیشن ہاؤس افسران ( ایس ایچ اوز) کے مطابق ہدایات کے تحت انہیں گذشتہ سال یعنی جنوری 2021 سے لے کر موجودہ وقت تک تمام روزنامچوں کو ایف ائی آر میں ڈھالنے کی ہدایات موصول ہوئی ہیں۔
سی سی پی او اعجاز خان نے اس بارے میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ فیصلہ پشاور میں بڑھتے ہوئے جرائم میں کمی لانے کے لیے کیا گیا ہے۔‘
سی سی پی او کے مطابق ’تھانوں میں مختلف عوامل اور اسباب کے پیش نظر مقدمات درج نہیں کیے جارہے تھے اور صرف روزنامچوں پر اکتفا کرکے کیسز کو نمٹایا جارہا تھا۔ جس کی وجہ سے کئی دیگر مسائل جنم لے رہے تھے۔ تھانہ حکام کی جانب سے ایف آئی آر درج نہ ہونے پر جہاں عوام میں ریاستی نظام کے خلاف مایوسی پھیل رہی تھی، وہیں جرائم میں اضافہ بھی ہو رہا تھا۔‘
اعجاز خان نے بتایا کہ ’روزنامچوں کو ایف آئی آر میں نہ بدلوانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ایس ایچ اوز کی کوشش ہوتی تھی کہ حکام بالا کو یہ باور کروا سکیں کہ ان کی کوششوں کی وجہ سے علاقہ جرائم سے پاک ہوگیا ہے۔ اس سے مجرموں کو مزید جرائم کرنے کی شہ ملتی تھی اور وہ انہیں دہرانے کی سعی کرتے رہتے تھے۔‘
دوسری جانب، پشاور کے ایک مصروف ترین پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، انہیں دن بھر کے تمام کیسز کو ایف آئی آر میں ڈھال کر حکام بالا کو رپورٹ کرنے کے احکامات ملے ہیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ ’ایسا کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے‘ اور وہ بھرپور کوشش کے بعد بھی شام گئے تک زیادہ سے زیادہ ایک رپورٹ تیار کروا سکیں گے۔‘
انہوں نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’جہاں ایک جانب اہلکاروں اور سہولیات کی کمی ہے وہیں ایک رجسٹر میں درج روزنامچوں کو ایف آئی آر میں بدلوانے کے لیے مہینے اور سال لگ سکتے ہیں۔‘
ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ ان کے پاس سال بھر کے تمام کیسز کے اعداد وشمار نہیں دستیاب ہیں۔
البتہ انہوں نے بتایا کہ ان کے تھانے میں دن میں کم سے کم ایک یا دو اور زیادہ سے زیادہ پانچ واقعات بھی رپورٹ ہوجاتے ہیں جن کی نوعیت کے مطابق، روزنامچہ یا مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق سیکریٹری داخلہ و سابق ایڈیشنل آئی جی پولیس اختر علی شاہ نے دوران ملازمت پولیس میں نئی اصلاحات کو متعارف کروایا تھا۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قابل دست اندازی جرائم کو مقدمات کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے حکام بالا کی کوششیں قابل ستائش ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’اگر ہر ذمہ داراپنے ماتحت کے اوپر کڑی نگرانی رکھتے ہوئے ایمانداری سے اپنے فرائض سرانجام دے تو نہ صرف عوام کا محکمہ پولیس پر اعتماد بڑھے گا بلکہ جرائم کی شرح میں بھی کمی آسکتی ہے۔‘
انہوں نےکہا کہ ’قابل دست اندازی اور ناقابل دست اندازی جرائم اور اس ضمن میں لگنے والی دفعات کی فہرست پاکستان کے قانون میں واضح ہیں، جن کی خلاف ورزی بذات خود ایک جرم ہے۔‘
روزنامچے اور ایف آئی آر میں بنیادی فرق کیا ہے؟
روزنامچہ جس کو ڈیلی ڈائری بھی کہا جاتا ہے، ایک ایسی کتاب ہے، جس میں ایک تھانے کے روزمرہ کے معمولات وواقعات بشمول تفتیشی افسر / ٹیم کی نقل وحرکت اور حوالات میں قیدیوں کی تعداد و تفصیل وغیرہ درج ہوتی ہیں۔
تاہم روزنامچے کے رجسٹر میں کسی بھی واقعے کااندراج اسے جرم نہیں بناتا۔ اور یہی روزنامچے کی اہمیت بھی ظاہر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی قیمتی اشیا یا اسناد کا گم ہوجانا، معمولی نوعیت کی لڑائی یا زبان درازی ہوجانا، ٹریفک کے اصول نظرانداز کرنا یا اس جیسی دیگر معمولی نوعیت کی شکایات وواقعات کو روزنامچے میں درج کیا جاتا ہے تاکہ معاملات کو خواہ مخواہ عدالتوں میں گھسیٹ کر نہ صرف عوام کو مقدمات میں الجھانے سے بچایا جائے بلکہ عدالتوں پر اضافی بوجھ بھی کم کیا جائے۔
دوسری جانب فرسٹ انفارمیشن رپورٹ یا ایف آئی آر پولیس کو تفتیش شروع کرنے کے لیے کسی بھی واقعے کے بارے میں دی جانے والی معلومات کا مجموعہ ہوتا ہے جو ایک واقعے کے چشم دید گواہ یا متاثرہ شخص کی جانب سے درج ہوتی ہے۔
ایف آئی آرکو بعض کیسز میں مخصوص وقت میں درج کروانا پڑتا ہے، جب کہ بعض واقعات میں شکایت کی صورت میں عدالت بھی پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے اور تفتیش شروع کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔