پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز(LUMS) کا دورہ کیا جہاں انہوں نے یونیورسٹی آڈیٹوریم میں سیمینار کے دوران خطاب کیا اور طلبہ کے سوالوں کے جواب بھی دیے۔
آرمی چیف نے لاہور کا دورہ تو پیر کے روز کیا لیکن پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر ) کی جانب سے گذشتہ روز یعنی منگل کو ان کی لمز میں مصروفیات کی تفصیلات جاری کی گئیں۔
لمز میں آرمی چیف کی نشست سات گھٹنے تک جاری رہی جس کے دوران طلبہ کی جانب سے کیے جانے والے سوالات اور ان کے جوابات سے متعلق بحث سوشل میڈیا پر بھی دو دن سے جاری ہے۔
اس معاملے پر طلبہ، اساتذہ اور دیگر صارفین نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ بعض نے ان کی گفتگو پر مثبت رائے کا اظہار کیا اور بعض نے تنقید بھی کی ہے۔
لمز میں اسسٹنٹ پروفیسر ندا کرمانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے یا میرے دوستوں نے اس تقریب میں شرکت نہیں کی۔ اس سے پہلے دعوت نامے تصدیق کے بعد دیے گئے تھے۔ میری کنفرمیشن تو ہو گئی تھی لیکن میں گئی نہیں۔ ایسا ایونٹ ہونا چاہیے لیکن پبلک ایونٹ ہونا چاہیے تاکہ پتہ چلے وہاں کیا باتیں ہوئیں۔ میں اس لیے وہاں نہیں گئی۔‘
انہوں نے کہا کہ میں نے شرکت کا فیصلہ اس لیے نہیں کیا کہ مجھے لگا کہ اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا۔ ان کے مطابق ’پہلے سے ہمیں بتا دیا گیا تھا کہ یہاں جو بھی باتیں ہوں گی وہ پبلک نہیں ہونی چاہییں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’تعلیمی اداروں میں بحث و مباحثے ہونے چاہییں۔ مسئلہ یہ ہے ان لوگوں کے پاس طاقت زیادہ ہے تو انہوں نے سرکاری طور پر تو نہیں کہا لیکن تھرڈ پارٹی سے پتہ چلا کہ اس وقت کچھ نہ کریں، اور اس معاملے پر ٹویٹس وغیرہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔‘
ندا کرمانی کا کہنا ہے کہ ’اس کے بعد بحث کا سیشن رکھا گیا۔ جس میں 80 طلبہ آئے ہوں گے۔ ہم نے بھی اس پربات کی اچھی بات ہے۔ لیکن ان کے پاس جو پاور ہے ان کا جو اثر ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ حتیٰ کہ ٹوئٹر پر بھی ان کے حق میں زیادہ بات کی جاتی ہے، اور جو تنقید کرتے ہیں ان کی بات کم سنی جاتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ندا کرمانی کا مزید کہنا تھا کہ ’اس ایونٹ کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم کہ انہوں خود کہا کہ ہم آ رہے ہیں یا انتظامیہ نے انہیں بلایا تھا۔‘ ندا کرمانی کے مطابق ’بہت عرصے بعد کسی آرمی چیف نے لمز کا دورہ کیا ہے۔ اس پہلے شاید ایک بار کوئی آرمی چیف لمز آیا ہو لیکن مجھے یاد نہیں۔‘
ندا کرمانی نے ایک ٹویٹ بھی کی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اس میٹنگ کے دوران خوف کا ماحول پیدا کیا گیا تھا اور طلبہ خود کو آرام دہ محسوس نہیں کر رہے تھے۔
اس ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے لمز ہی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد طارق نے ٹویٹ کی: ’یہ انتہائی افسوسناک ہے۔ مجھے کسی معزز ساتھی سے جھوٹ پھیلانے کی توقع نہیں ہے۔ خاص طور پر جب وہ وہاں نہیں تھیں۔ سات گھنٹے کا ماحول انتہائی دوستانہ، اجتماعی اور احترام والا تھا۔ لمز کے طلبہ، فیکلٹی، عملہ اس سیشن میں شرکت کر کے بہت خوش ہیں۔‘
لمز یونیورسٹی کی ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جنرل قمر جاوید باوجوہ کی آمد پر یونیورسٹی معمول کے مطابق چلتی رہی۔ وہ ہماری دعوت پر یونیورسٹی آئے تھے۔ بحث مباحثے کے گھنٹوں چلنے والے سیشن میں انہوں نے شرکا کے سخت سوالوں کے جواب بھی خندہ پیشانی اور تفصیل کے ساتھ دیے۔ انہوں نے سیاسی اور سکیورٹی ایشوز پر بھی کھل کر بات کی۔ ان کی گفتگو تمام شرکا کے لیے متاثر کن تھی۔ جو لوگ اس پر تنقید کر رہے ہیں وہ ان کا حق ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ ’وزیر اعظم سے متعلق سوشل میڈیا پر سوال کے جواب میں ان کا ایک بیان وائرل ہے کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فیصلے میری مرضی سے ہوتے ہیں وہ عمران خان کو نہیں جانتے یہ بات بھی ہوئی؟‘
انہوں نے جواب دیا کہ ’یہ بات ضرور ہوئی ہے لیکن اسے سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ وہ جنرل باتوں کا جواب دے رہے تھے اور آئینی اختیارات سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔‘