پولیو سے متاثرہ دنیا کے آخری دو ممالک میں سے ایک اور اپنے ہمسایہ ملک افغانستان میں وبا اور تنازعے کے باوجود پاکستان میں پورے ایک سال تک کوئی نیا کیس رپورٹ نہیں ہوا۔
صحافی سونیا سرکار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں 29 سالہ پولیو ورکر محزمہ شکیل ہر روز آٹھ گھنٹے تک گھر گھر جاتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی بچہ ویکسین کے بغیر رہ نہ جائے۔
محزمہ شکیل نے برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری ہونے والے ہفتہ وار جریدے بی ایم جے کو بتایا کہ ’بہت سے لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ ہم دوبارہ کبھی ان کے دروازے نہ کھٹکھٹائیں، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ویکسینیشن ان کی نسل کو ختم کر دے گی۔ لیکن ہم اس وقت تک ہار نہیں مانتے جب تک ہم انہیں یہ یقین نہ دلا دیں کہ ان کے بچے کی صحت مند زندگی کے لیے پولیو ویکسین کا ہر قطرہ پینا ضروری ہے۔‘
محزمہ شکیل پاکستان میں ان تین لاکھ 80 ہزار پولیو ورکرز میں ایک ہیں جنہوں نے27 جنوری 2021 کے بعد سے اس وائرس کا کوئی کیس نہیں دیکھا۔
صحت اور عوامی پالیسی کے ماہر ندیم جان پہلے خیبر پختونخوا اور پھر اس کے ملحقہ سابقہ وفاقی زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں پولیو کے خاتمے کی مہم کی قیادت کی تھی۔ ان دونوں علاقوں کو پولیو وائرس کا گڑھ سمجھا جاتا تھا-
ندیم جان نے بی ایم جے کو بتایا کہ کیسز میں اس طرح کی اچانک کمی کے پیچھے واحد قابل فہم منطق انسداد پولیو کے پروگرام کے معیار میں اضافہ ہے جس کے پیچھے فیلڈ ورکرز کا ’بڑھا ہوا عزم اور تحریک‘ ہے۔
جب عالمی ادارہ صحت کی انسداد پولیو کے لیے مربوط عالمی کوششیں اختتام پذیر ہوتی دکھائی دے رہی ہیں تو واحد پاکستان ہے جو مشکلات کے باوجود اسے جاری رکھے ہوئے۔
اس ملک کا مقصد اگلے 18 ماہ میں اسے پولیو سے پاک قرار دیا جانا ہے اور اس سال دو کروڑ 24 لاکھ سے زیادہ بچوں کو ویکسین پلائی جا چکی ہے۔
لیکن ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ جس ملک میں 1990 کی دہائی کے اوائل میں ایک سال کے اندر خطرناک 20 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے وہاں اس کا کنٹرول ہونا بہت جلد ہے۔
1994 میں انسداد پولیو کے قومی پروگرام کے آغاز سے لے کر اب تک تین دہائیوں سے پاکستان ایسے مسائل سے دوچار ہے جو ویکسینیشن کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں، یعنی خطرناک جغرافیائی علاقے، گنجان آبادی، ویکسین پلوانے میں ہچکچاہٹ اور پولیو ورکرز پر حملے۔
آگے کا راستہ بھی ہموار نہیں ہے۔ سب سے بڑھ کر، اب سب سے بڑا کام ان بچوں کو ویکسین پلانا ہے جو گذشتہ سال طالبان کے کنٹرول کے بعد افغانستان سے آ رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے پولیو کوآرڈینیٹر عبدالباسط کا کہنا ہے کہ افغانستان کی سرحد سے متصل چھ اضلاع بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور ٹانک میں اس بیماری کا خاتمہ سب سے زیادہ مشکل ہے۔ افغانستان میں رواں سال خطرناک پولیو وائرس کا ایک اور گذشتہ سال چار کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
اگرچہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو ہزار 640 کلومیٹر سرحد پر تمام چھ باضابطہ کراسنگ پوائنٹس پر ویکسی نیٹرز 24 گھنٹے دستیاب ہیں لیکن، باسط کا کہنا ہے کہ افغان پاکستان میں داخل ہونے کے لیے جو غیر روایتی راستے اختیار کرتے ہیں وہاں یہ خطرہ ابھی بھی موجود ہے۔
اس(افغان) آبادی میں پولیو کے کیسز پر نظر رکھنے کے لیے پاکستان نے انسداد پولیو مہم افغان پناہ گزین کیمپوں تک بڑھا دی ہے۔
پولیو اور دہشت گردی کے خلاف جنگ
صحت اور عوامی پالیسی کے ماہر ندیم جان کا کہنا ہے کہ 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد امریکی قیادت میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نے خیبر پختونخوا اور سابقہ فاٹا میں انسداد پولیو کے پروگراموں کو بہت متاثر کیا ہے۔
ان کہنا تھا: ’2011 میں القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کے لیے ہیپاٹائٹس کی سکریننگ کی جعلی مہم چلانے کے الزام میں مبینہ طور پر سی آئی اے کی جانب سے تعینات ایک معالج شکیل آفریدی کی گرفتاری کے بعد انسداد پولیو کی مہم کو بڑا دھچکا لگا تھا۔‘
2012 میں خیبر پختونخوا میں سرعام کام کرنے والے عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان نے سابقہ فاٹا کے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں انسداد پولیو مہمات پر پابندی عائد کر دی تھی۔
خیبر پختونخوا کے پولیو کوآرڈینیٹر عبدالباسط کا کہنا ہے کہ ’صوبے میں مذہبی سخت گیروں سے متاثر لوگوں کے ایک طبقے کو شک ہے کہ پولیو ورکز مغرب کے ایجنٹ ہیں جو مسلم آبادی پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
یہاں پولیو ورکرز اور ان کے ساتھ آنے والی پولیس پر عسکریت پسندوں کے حملے ہوئے ہیں۔ 2012 سے اب تک عسکریت پسندوں نے 70 سے زائد پولیو ورکرز کو نشانہ بنایا ہے۔
ندیم جان کے مطابق 2014 میں پاکستانی فوج کی جانب سے سابقہ فاٹا میں انسداد دہشت گردی کی کامیاب کارروائی شروع کرنے کے بعد انسداد پولیو مہم دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی تھی۔
2015 میں مقامی ایمرجنسی آپریشنز مراکز میں کام میں تیزی آئی اور تمام انسانی وسائل کو ایک پلیٹ فارم کے تحت جمع کیا گیا۔
انہوں نے بی ایم جے کو بتایا کہ علاوہ ازیں بہتر نگرانی، مربوط نقطہ نظر، معیاری مہمات، غیر فعال پولیو ویکسین کے لیے عمر گروپ کو بڑھا کر پانچ سال (سابق چھ ماہ سے دو سال تک) کرنے، مواصلاتی حکمت عملی کو بہتر بنانے اور فیلڈ ورکرز کی اجرت کو بہتر بنا کر چھ ڈالر یومیہ کرنے کی وجہ سے بھی کیسز کی تعداد میں کمی واقع ہوئی۔
کوششیں جاری رکھنا
اس کے باوجود اس مہم کی رفتار کو برقرار رکھنا پاکستان کے لیے چیلنج رہا ہے۔ 2017 میں جب پولیو وائرس کے صرف آٹھ کیسز ریکارڈ ہوئے تو توقعات تھیں کہ پاکستان جلد ہی پولیو کا خاتمہ کر لے گا۔
لیکن یہ کیسز 2018 میں 12 اور پھر 2019 میں 147 تک بڑھ گئے۔
ندیم جان کے مطابق انسداد پولیو کی ٹیموں کے اندرونی تنازعات، قیادت کا فقدان اور کم اجرت (فیلڈ ورکرز کے لیے تین ڈالر یومیہ) کو پولیو کیسز میں اضافے کی وجوہات سمجھتے ہیں۔ بعض صورتوں میں پولیو ورکرز نے بچوں کے والدین کے دباؤ میں آکر ویکسین پلائے بغیر بچوں کی انگلیوں پر ویکسین شدہ والے نشان لگائے۔
انسداد پولیو کے پروگرام کے ایک عہدیدار نے بی ایم جے کو نام ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں بہت سے لوگ جو کوہاٹ سے جنوبی وزیرستان تک کی پٹی میں خط غربت سے نیچے رہتے ہیں وہ اپنے بچوں کو ویکسینیشن کی اجازت دینے سے پہلے پینے کا صاف پانی اور صفائی ستھرائی کی بہتر سہولیات کا مطالبہ کرتے ہیں۔
سندھ کے گنجان آباد دارالحکومت کراچی میں خواتین پولیو ورکرز کے حقوق کی نگران غیر منافع بخش تنظیم نیشنل آرگنائزیشن فار ورکنگ کمیونٹیز کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فرحت پروین کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں کو ’طالبان سے متاثرہ اسلام پسندوں‘ نے سکھلایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ اپنے بچوں کو پولیو ویکسین پلانے سے انکار کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسلام آباد میں متعدی بیماری اور صحت عامہ کے آزاد محقق عدنان خان نے بی ایم جے کو بتایا کہ اگر خاندان کے مرد افراد گھر پر نہ ہوں تو ملک کی شہری کچی آبادیوں میں رہنے والی کچھ خواتین پولیو ٹیموں کو انکار کرسکتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے: ’ایسے گھرانے بھی ہیں جو پولیو ورکرز کو باہر کے لوگ سمجھتے ہیں اگر ان کا تعلق کسی مختلف قبیلے، ذات پات سے ہے یا وہ کوئی اور زبان بولتے ہیں۔‘
2015 میں پاکستان نے اپنے بچوں کو ٹیکہ لگانے کی اجازت دینے سے انکار کرنے پر 500 سے زائد والدین کو گرفتار کیا تھا۔ چار سال بعد دنیا میں پولیو کا سب سے بڑا مرکز شمار ہونے والے شہر پشاور میں مقامی لوگوں نے ایک ہسپتال میں اس وقت ایمرجنسی لگوا دی جب مبینہ طور پر 700 بچے پولیو کے قطرے پینے کے بعد بیمار ہو گئے۔
عبدالباسط کا کہنا ہے کہ سرکاری ادارے سوشل میڈیا پر انسداد پولیو ویکسین کے خلاف پروپیگنڈے کو روک رہے ہیں جبکہ بااثر مذہبی رہنماؤں کو ویکسین کے بارے میں خرافات کو دور کرنے کے پروگرام میں شامل کیا گیا ہے۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ہائی رسک اضلاع کی باقاعدگی سے نگرانی کی جاتی ہے جبکہ فیلڈ ورکرز کی سیکورٹی اور نوزائیدہ بچوں، نئے تارکین وطن اور نئی بستیوں تک ان کی رسائی میں بہتری آئی ہے، باسط نے مزید کہا کہ اس پروگرام کے تحت شامل نہ ہونے والے بچوں میں سے ایک فیصد میں ’سخت قوت مدافعت‘ پیدا ہونے کا امکان ہے۔ اگرچہ کورونا وائس کی وبا کی وجہ سے چند ماہ تک پولیو ویکسینیشن پروگرام روک دیا گیا تھا لیکن اس میں دوبارہ تیزی آئی ہے۔
ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس
اب ماہرین کو جو پریشانی ہے وہ سیوریج میں پولیو وائرس کا پھیلاؤ ہے۔ گذشتہ سال پاکستان میں گردش کرنے والی ویکسین سے ماخوذ پولیو وائرس (سی وی ڈی پی وی 2) کے آٹھ کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
عدنان خان کا کہنا ہے:’افغانستان میں حالیہ ہنگامہ آرائی کی وجہ سے باقاعدہ ویکسی نیشن مہم نہیں ہوئی، لیکن نگرانی سے تصدیق ہوئی کہ ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس اور سی وی ڈی پی وی 2 موجود ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ ویکسین ان علاقوں تک پہنچ رہی ہے۔ غالیباً یہ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں ویکسین کی وجہ سے ہے۔‘
لیکن اگر سی وی ڈی پی وی 2 ایک غیر ویکسین شدہ بچے سے کم امیونائزیشن کی شرح والی کمیونٹیز میں پھیلتا ہے، تو یہ تبدیل ہو سکتا ہے اور ایسی شکل اختیار کر سکتا ہے جو فالج کا سبب بن سکتی ہے۔
پاکستان اور افغانستان دونوں، جنہیں ڈبلیو ایچ او ایک وبائی امراض کا بلاک سمجھتا ہے، میں اب پولیو وائرس کی بجائے پولیو مہم سے لی گئی ویکسین سے فالج کے واقعات زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں۔
وزیر اعظم کے معاون صحت فیصل سلطان نے بی ایم جے کو بتایا: ’چیلنج یہ ہے کہ ماحولیات کے ان نمونوں کو تندہی سے چلائی جانے والی مہمات کے ذریعے صفر تک لے جایا جائے اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی بچہ پیچھے نہ رہے۔‘
رواں سال اب تک پاکستان میں ماحولیاتی نمونوں میں سی وی ڈی پی وی 2 کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔
پاکستان کا پولیو وائرس افریقہ منتقل
دریں اثنا افریقی ملک ملاوی میں 2020 میں ہر قسم کے پولیو سے پاک قرار دیے جانے کے بعد فروری میں پولیو پھیلنے کی اطلاع ملی تھی اور اس کا تعلق پاکستان میں پولیو سے جوڑا گیا ہے۔
ڈاکٹر سلطان کا کہنا ہے کہ ملاوی کا کیس جینیاتی طور پر ایک قسم سے جڑا ہوا ہے جو2019 تک پاکستان کے جنوبی حصوں میں رہا لیکن اس کے بعد غائب ہوگیا۔
ان کا کہنا ہے کہ شدید فلاسیڈ فالج اور ماحولیاتی نمونوں کے لیے پاکستان کی نگرانی کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ مضبوط ہے اور اس لیے کسی بھی کیس کے غائب ہونے کا امکان ’بہت کم‘ ہے۔
انہیں شبہ ہے کہ یہ دنیا میں کسی ایسی جگہ سے آیا ہے جہاں ’قوت مدافعت میں کمی یا ماحولیاتی نگرانی کی موجودگی میں کمی‘ ہے۔
پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کی پولیو ٹیم کے زین العابدین خان کا کہنا ہے کہ پولیو کے عالمی وبائی امراض سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیو وائرس ہمیشہ دور دراز یا ایسے علاقوں میں پایا جاتا ہے جہاں رسائی ممکن نہیں ہو پاتی جہاں صحت اور ویکسی نیشن کی خدمات ناکافی ہیں، یا زیادہ خطرے اور دوردراز آبادیوں میں جو باقاعدہ اور ضمنی ویکسی نیشن سے محروم ہیں۔
عدنان خان کا کہنا ہے کہ ان مہارتوں کی بنیاد پر پاکستان نے مختلف سطح کے خطرات والے علاقوں اور آبادی کے گروپوں کی نشاندہی کی ہے اور اس طرح مناسب وسائل مختص کیے ہیں، ویکسی نیشن مہمات شروع کی ہیں اور کمیونٹی کے ساتھ رابطے بڑھائے ہیں۔
ندیم جان کا خیال ہے کہ پاکستان کو ’مستقل سیاسی عزم، معیاری ویکسینیشن مہمات اور جوابدہی کے بارے میں بہتر توسیع شدہ پروگراموں‘ کے ساتھ پولیو سے پاک قرار دیا جا سکتا ہے۔
دریں اثنا محزمہ شکیل کا لوگوں کا ’اعتماد جیتنے‘ کے لیے ان کی گھر گھر کوششوں کا کا کام جاری ہے۔
یہ تحریر اس سے قبل انگریزی زبان میں بی ایم ڈاٹ کام پر شائع ہو چکی ہے اور ان کی اجازت سے ہی یہاں اسے اردو زبان میں شائع کیا گیا ہے۔