افغانستان میں اگست 2021 میں طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعد سے کئی ماہ تک بند رہنے والے لڑکیوں کے سیکنڈری اور ہائی سکول آخر کار بدھ کو کھلے تو چند گھنٹوں بعد ہی طالبان حکام نے انہیں دوبارہ بند کروا دیا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق وزارت تعلیم نے گذشتہ ہفتے سکول کھولنے کا اعلان کرنے کے بعد منگل کی شب ایک ویڈیو پیغام میں کلاسوں میں واپس آنے پر طلبہ کو مبارک باد دی تھی، تاہم باختر نیوز ایجنسی کے مطابق بدھ کو وزارت سے جاری ایک نوٹس میں کہا گیا کہ سکول تب تک بند رہیں گے جب تک اسلامی قانون اور افغان ثقافت کے مطابق ان کے کھلنے کا منصوبہ نہ بنا لیا جائے۔
نوٹس میں کہا گیا: ’تمام لڑکیوں کے ہائی سکولز اور ان سکولوں کو اطلاع دی جا رہی ہے جن کی طالبات چھٹی کلاس سے اوپر کی کلاسوں میں ہیں کہ اگلے حکم تک سکول بند رہیں گے۔‘
طالبان ترجمان نے سکول بند کرنے کی فوری طور پر کسی وجہ کا ذکر نہیں کیا جبکہ رابطہ کرنے پر وزارت تعلیم کے ترجمان عزیز احمد رایان کا کہنا تھا: ’ہمیں اس پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک ٹیم دارالحکومت کابل کے ذرغونہ ہائی سکول میں عکس بندی کر رہی تھی جب ایک ٹیچر نے اندر داخل ہو کر کلاس برخاست ہونے کا اعلان کیا۔
دل گرفتہ طالبات کو طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے سات ماہ بعد تدریسی عمل جاری رکھنے کا موقع ملا تھا لیکن اس مرتبہ پھر انہیں نم آنکھوں کے ساتھ اپنے بستے باندھ کر واپس جانا پڑا۔
اومرا خان گرلز سکول کابل کی ایک ٹیچر پلوشہ نے اے ایف پی کو بتایا: ’میری طالبات رو رہی ہیں اور کلاس چھوڑ کر جانے سے کترا رہی ہیں۔ اپنی طالبات کو روتا دیکھنا بہت درد ناک ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقوام متحدہ کی مندوب ڈیبررا لیونز نے ان اطلاعات کو ’پریشان کن‘ قرار دیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا: ’اگر ایسا ہوا ہے تو اس کی ممکنہ وجہ کیا ہو سکتی ہے؟‘
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق یہ سکول میں لڑکیوں پر پابندی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایشو لڑکیوں کے سکول یونیفارم سے متعلق ہے۔ جس کی وجہ سے یہ مسئلہ تعطل کا شکار ہے۔
سہیل شاہین نے یہ امید ظاہر کی کی سکول یونیفارم کا مسئلہ جلد حل ہوجائے گا اور سب ایک فیصلے پر متفق ہوجائیں گے۔
گذشتہ سال جب طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھالا تو تمام سکول کرونا وبا کی وجہ سے بند تھے۔ لیکن دو ماہ بعد جب تعلیمی ادارے دوبارہ کھلے تو صرف لڑکوں اور کم عمر لڑکیوں کو ہی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی گئی۔
بین الاقوامی برادری نے سب کے لیے تعلیم کے حق کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کا متواتر نقطہ بنائے رکھا تھا اور کئی ممالک نے اساتذہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کی پیشکش بھی کی تھی۔
حالیہ دنوں میں طالبان نے اعلان کیا تھا کہ لڑکیوں کی تعلیم پر عائد پابندی ختم کی جا رہی ہے اور اسی سلسلے میں بدھ کو لڑکیوں کے سیکنڈری سکول کھلے مگر یہ عارضی ثابت ہوا۔
اے ایف پی کی ٹیم نے بدھ کو لڑکیوں کی کئی ٹولیوں کو دارالحکومت کابل میں سکول کے میدانوں میں داخل ہوتے دیکھا۔
سینکڑوں لڑکیاں مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے زرغونہ ہائی سکول پہنچ گئیں جو دارالحکومت کا سب سے بڑا سکول ہے۔
اسی طرح رابعہ بلخی سکول میں بھی درجنوں لڑکیاں اکٹھی ہو کر مرکزی دروازے سے اندر داخلے کا انتظار کرتی رہیں۔
تاہم سکول بند ہونے پر طالبات افسردہ تھیں۔ ایک طالبہ نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم سب مایوس ہوگئیں، جب پرنسپل نے بتایا تو ہم ناامید ہوگئیں، وہ بھی رو رہی تھیں۔‘
’دباؤ میں نہیں آئے‘
اس سے قبل سکول کھولنے کے فیصلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزارت تعلیم کا کہنا تھا کہ ’سکولوں کو دوبارہ کھولنا ہمیشہ سے حکومت کا مقصد تھا اور طالبان دباؤ میں آ کر ایسا نہیں کر رہے۔‘
وزارت تعلیم کے ترجمان عزیز احمد رایان نے کہا تھا کہ حکومت اپنی ذمہ داری کے تحت سکول کھول رہی ہے تاکہ طالبات کو تعلیم اور دیگر سہولیات مہیا کر سکے۔
انہوں نے اعتراف کیا تھا سکولوں میں اساتذہ کی کمی ہے جسے پوری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
’ہمارا مستقبل کیا ہو گا؟‘
سکول کھلنے سے پہلے کچھ طالبات نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’واپس آنے کے لیے بے تابی سے منتظر تھیں چاہے اس کے لیے طالبان کے جاری کردہ ڈریس کوڈ کے تحت پردہ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔‘
ریحانہ عزیزی جو 17 سال کی ہیں انہوں نے کہا: ’ہم پہلے ہی اپنی پڑھائی میں پیچھے رہ گئے ہیں۔‘
ریحانہ نے کالے رنگ کا عبایہ، سر پر سکارف اور چہرے کو نقاب سے ڈھانپ رکھا تھا۔
طالبان نے خواتین پر پابندیوں کا اطلاق کیا ہوا ہے جس میں ان پر کئی سرکاری ملازمتوں، لباس اور دیگر شہروں میں اکیلے سفر پر پابندیوں کا سامنا ہے۔