امریکہ نے افغانستان کے حکمرانوں کی جانب سے لڑکیوں کے سیکنڈری سکولوں کو بند کرنے کے حکم کے بعد طالبان کے ساتھ دوحہ میں طے شدہ مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کی نائب ترجمان جلینا پورٹر نے جمعے کو ایک بیان میں کہا: ’ہم نے طالبان کے ساتھ اپنی کچھ طے شدہ ملاقاتیں منسوخ کر دی ہیں، جن میں دوحہ فورم کے تحت طے شدہ ملاقاتیں بھی شامل ہیں اور واضح کر دیا ہے کہ ہم اس (سکولوں کی بندش کے) فیصلے کو اپنی پالیسی میں ایک ممکنہ موڑ کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘
طالبان، جنہوں نے گذشتہ سال اگست میں افغانستان کا اقتدار سنبھالا اور اب اپنی حکومت کو عالمی برادری سے تسلیم کروانے کے خواہاں ہیں، نے رواں ہفتے لڑکیوں کے سکینڈری سکولوں کو دوبارہ کھولنے کے چند گھنٹوں بعد ہی بند کر دیا تھا۔
پورٹر نے نامہ نگاروں کو بتایا: ’اگر طالبان کی طرف سے یہ فیصلہ فوری طور پر واپس نہ لیا گیا تو اس سے افغان عوام، ملک کی اقتصادی ترقی کے امکانات اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے طالبان کے عزائم کو شدید نقصان پہنچے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’افغانستان کے مستقبل اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ طالبان کے تعلقات کی خاطر ہم افغان حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنے وعدوں پر عمل درآمد اور اپنے عوام کے ساتھ مل کر کام کریں۔‘
نائب ترجمان کا کہنا تھا: ’ہم افغان لڑکیوں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ بھی کھڑے ہیں جو تعلیم کو افغانستان کے معاشرے اور معیشت کی ترقی کے لیے اہم سمجھتے ہیں۔‘
طالبان کی طرف سے لڑکیوں کے سکول بند رکھنے کا فیصلہ منگل کو جنوبی شہر قندھار میں سینیئر حکام کے ایک اہم اجلاس کے بعد سامنے آیا تھا۔
یہ فیصلہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے افغان اساتذہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کئی مہینوں کی محنت کے بعد سامنے آیا اور یہ ایسے وقت میں ہوا جب افغان لڑکیاں سات ماہ بعد پہلی بار سکول واپس جا رہی تھیں۔
جب طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے 1996 سے 2001 تک اپنی پہلی حکومت کے مقابلے میں لچکدار اور نرم پالیسیوں کا وعدہ کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے اسلامی شریعت کی اپنی تشریح کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ لڑکیوں کو یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہوگی۔
تاہم خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان نے خواتین پر بہت سی پابندیاں عائد کر دی ہیں جن میں ملازمت، ملبوسات اور اکیلے سفر نہ کرنے جیسی پابندیاں شامل ہیں۔
جمعرات کو ایک مشترکہ بیان میں برطانیہ، کینیڈا، فرانس، اٹلی، ناروے اور امریکہ کے وزرائے خارجہ کے علاوہ یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے نے کہا تھا کہ طالبان کے فیصلے سے اس گروپ کی قانونی حیثیت کے امکانات کو نقصان پہنچے گا۔
اس بیان پر دستخط کرنے والوں میں خاص طور پر ناروے بھی شامل تھا، جس نے جنوری میں طالبان اور کئی مغربی سفارت کاروں کے درمیان تاریخی مذاکرات کی میزبانی کی تھی۔
اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل باکلیٹ نے بدھ کو کہا: ’تعلیم پر پابندی خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، جس سے انہیں تشدد، غربت اور استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
اقوام متحدہ کے تعلیمی ادارے یونیسکو کی سربراہ آڈری ازولے نے بھی طالبان کے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے اسے ایک بڑا دھچکا قرار دیا۔
انہوں نے کہا: ’تعلیم تک رسائی ایک بنیادی حق ہے۔ یونیسکو اپنے مطالبے کا اعادہ کرتا ہے کہ لڑکیوں کو مزید تاخیر کے بغیر سکول جانے کی اجازت دی جانی چاہیے۔‘
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق وزارت تعلیم نے گذشتہ ہفتے سکول کھولنے کا اعلان کرنے کے بعد منگل کی شب ایک ویڈیو پیغام میں کلاسوں میں واپس آنے پر طلبہ کو مبارک باد دی تھی، تاہم باختر نیوز ایجنسی نے بدھ کو وزارت سے جاری ایک نوٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سکول تب تک بند رہیں گے جب تک اسلامی قانون اور افغان ثقافت کے مطابق ان کے کھلنے کا منصوبہ نہ بنا لیا جائے۔
کئی میڈیا اداروں نے رپورٹ کیا کہ طالبات اور اساتذہ اس فیصلے سے پریشان ہوئیں اور روتے ہوئے گھروں کو واپس گئیں۔
فیصلے کے بعد طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ایک بیان میں کہا تھا کہ سکول میں لڑکیوں پر پابندی کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ مسئلہ لڑکیوں کے سکول یونیفارم سے متعلق ہے۔
سہیل شاہین نے یہ امید ظاہر کی کہ سکول یونیفارم کا مسئلہ جلد حل ہوجائے گا اور سب ایک فیصلے پر متفق ہوجائیں گے۔