امید ہے طالبان گرلز سکول کھول دیں گے: امریکہ

امریکہ کے نمائندہ خصوصی تھامس ویسٹ نے امید ظاہر کی ہے کہ افغان طالبان ’آنے والے دنوں میں‘ طالبات کو سکولوں سے دور رکھنے کا فیصلہ واپس لے لیں گے۔

خواتین اوربچیاں 26 مارچ، 2022 کو کابل میں وزارت تعلیم کے سامنے احتجاج کر رہی ہیں (اے ایف پی)

امریکہ کے نمائندہ خصوصی تھامس ویسٹ نے ہفتے کو کہا کہ واشنگٹن کو امید ہے کہ افغان طالبان ’آنے والے دنوں میں‘ طالبات کو سکولوں سے دور رکھنے کا فیصلہ واپس لے لیں گے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکہ نے بدھ کو طالبان کی جانب سے لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی کے اعلان کے جواب میں دوحہ فورم کے موقعے پر طالبان انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات موخر کر دیے تھے۔

مذاکرات کی قیادت کرنے والے ویسٹ نے دوحہ فورم کو بتایا: ’مجھے امید ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم دیکھیں گے یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے۔

’میں گذشتہ بدھ کو اس تبدیلی پر حیران ہوا اور میرا خیال ہے کہ آپ نے دنیا کو اس پر ردعمل کا اظہار اور اس کی  مذمت کرتے ہوئے دیکھا۔ یہ افغان عوام کے اعتماد کو پہنچائی جانے والی پہلی اور سب سے بڑی ٹھیس ہے۔’

مغرب کا کہنا کہ حالیہ مہینوں میں بات چیت کے دوران طالبان نے دیگر ممالک کو یقین دہانی کرائی تھی کہ لڑکیوں کو دوبارہ سکول جانے کی اجازت دی جائے گی۔

دو دہائیوں تک مغربی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف جنگ کرنے والے طالبان نے گذشتہ سال اگست میں اقتدار پر قبضہ کیا۔

طالبان نے بدھ کو سکول کھلنے کے چند گھنٹے بعد انہیں بند کر دیا جس پر عالمی سطح پر برہمی کا اظہار کیا گیا۔

دوحہ میں طالبان کے نمائندہ دفتر کے سربراہ سہیل شاہین نے اے ایف پی کو بھیجے گئے تحریری پیغام میں کہا کہ طالبان کی لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف کوئی پالیسی نہیں۔

ان کے مطابق: ’چند مسائل ہیں جنہیں پہلے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے 23 مارچ کو گرلز سکول کھولنے کی ڈیڈ لائن سے قبل یہ مسائل نہیں کیے گئے۔‘

دوسری جانب 26 مارچ کو ایک سرکاری خط میں طالبان حکام نے تمام سرکاری وزارتوں اور محکموں کو ہدایت کی کہ وہ سرکاری خطوط ہجری قمری کیلنڈر کے مطابق لکھیں۔ حکومتی امور کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور طالبان انتظامیہ کے سربراہ شیخ نور الحق انور کے دستخط شدہ خط میں حکومتی وزارتوں اور محکموں سے کہا گیا کہ وہ اب سے سرکاری خطوط  ہجری قمری کیلنڈر کے مطابق لکھیں۔

طالبان کا یہ حکم ان کی حکومت کے پہلے دور میں پورے افغانستان میں نافذ کیا گیا تھا کیوں کہ انہوں نے شمسی کیلنڈر کو افغانستان کے سرکاری کیلنڈر کے طور پر قبول نہیں کیا تھا۔

کابل میں احتجاج

افغان دارالحکومت کابل میں آج (ہفتے کو) صبح درجنوں طالبات سڑکوں پر نکل آئیں اور اپنی تعلیم کے حق کے لیے احتجاج کیا۔

مظاہرین میں ساتویں جماعت کی لڑکیاں بھی تھیں جن کی عمریں 10 سے 12 سال کے درمیان تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طالبات نے سکول بند رکھنے میں توسیع کے فیصلے کے خلاف نعرے لگائے۔ احتجاج کرنے والی لڑکیوں نے کتبے اٹھا رکھے جن پر لکھا تھا: ’میرا سبق مت چھینو۔‘

افغانستان میں طالبان نے چھٹی جماعت سے اوپر لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کرنے کے بعد  اس میں توسیع کی ہے جب کہ لڑکوں کے سکول کھول دیے گئے۔

ہفتے کو ایک بیان میں کابل میں احتجاج کرنے والی طالبات نے لڑکیوں کے اہل خانہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ہر طرح سے اپنی بیٹیوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔ سلامتی کونسل نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ افغانستان میں تمام لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔

بیان میں طالبان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ سکولوں کے دروازے سب کے لیے کھولیں اور محفوظ تعلیمی ماحول فراہم کریں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا