یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے ہفتے کی صبح اپنی عوام کو خبردار کیا ہے کہ روسی افواج کی دارالحکومت کیئف سے پسپائی مکمل تباہی کا باعث بن رہی ہے کیوں کہ روسیوں نے پیچھے ہٹنے سے پہلے ہر جگہ بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں، حتیٰ کہ گھروں اور لاشوں کے اردگرد بھی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق یوکرینی صدر کا یہ انتباہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب محاصرے کے شکار شہر ماریوپول میں انسانی بحران مزید گہرا ہو گیا ہے جہاں روسی افواج نے مسلسل دوسرے دن لوگوں کو انخلا سے روک دیا ہے۔
ادھر کریملن نے یوکرین پر الزام لگایا کہ انہوں نے روسی سرزمین پر ایندھن کے ڈپو پر ہیلی کاپٹر سے حملہ کیا ہے۔
اگرچہ یوکرین نے وسیع آتشزدگی کا باعث بننے والے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا تھا لیکن اگر ماسکو کے دعوے کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ اس جنگ کا پہلا واقعہ ہو گا جب یوکرین نے روسی سرزمین میں گھس کر کارروائی کی ہے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا: ’یقینی طور پر اس (حملے) سے مذاکرات کے تسلسل کو آگے بڑھانے میں مدد نہیں مل سکے گی۔‘
روس نے رواں ہفتے کے آغاز پر یہ کہنے کے بعد کہ وہ یوکرین کے دارالحکومت اور شمالی شہر چرنیہیو کے قریب فوجی سرگرمیاں کم کر دے گا، کیئف کے باہر علاقوں سے اپنی کچھ زمینی افواج کا انخلا جاری رکھا۔
تاہم صدر زیلنسکی نے قوم سے اپنے ویڈیو خطاب میں روسی پسپائی کے بارے میں بتایا کہ وہ پورے علاقے میں بارودی سرنگیں بچھا رہے ہیں۔
ان کے بقول: ’وہ گھروں اور حتیٰ کہ ہلاک ہونے والے لوگوں کی لاشوں کے اردگرد بھی مائننگ کر رہے ہیں۔ وہاں بہت ساری ٹِرپ تاریں لگا دی گئی ہیں جس سے بہت سے دوسرے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔‘
انہوں نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ اس وقت تک اپنی معمول کی زندگی دوبارہ شروع کرنے سے گریز کریں جب تک انہیں یہ یقین نہ دلایا جائے کہ بارودی سرنگیں صاف کر دی گئی ہیں اور گولہ باری کا خطرہ ٹل گیا ہے۔
ادھر روسی فورسز نے کیئف اور چرنیہیو شہر کے ارد گرد اپنی بمباری جاری رکھی جب کہ یوکرین کی فوج نے بھی جوابی حملے کرتے ہوئے متعدد قصبوں اور دیہات پر دوبارہ قبضے کا دعویٰ کیا ہے۔
اس کے باوجود یوکرین اور اس کے اتحادیوں نے خبردار کیا کہ کریملن مذاکرات کی میز پر اعتماد کو فروغ دینے کے لیے کشیدگی میں کمی نہیں لا رہا بلکہ اس کے برعکس اپنے فوجیوں کو ملک کے مشرق میں منتقل کر رہا ہے اور انہیں رسد پہنچا رہا ہے۔
یہ کارروائیاں یوکرین کے مشرق میں زیادہ تر روسی بولنے والے دونبیس کے علاقے، جس میں ماریوپول بھی شامل ہے، پر ایک بڑے حملے کی تیاری دکھائی دیتی ہے۔
صدر زیلنسکی نے آنے والے دنوں میں مشکل لڑائی کے بارے میں بھی خبردار کیا کیونکہ روس اپنے فوجوں کو دوبارہ تعینات کر رہا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا: ’ہم بھی بھرپور دفاع کی تیاری کر رہے ہیں۔‘
اس حملے کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور یوکرین سے 40 لاکھ سے زیادہ پناہ گزین ملک سے نکلنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
کئی ہفتوں سے محاصرے کا شکار ساحلی شہر ماریوپول نے جنگ کے بدترین مصائب کا سامنا کیا ہے جس پر قبضہ روسی صدر ولادی میر پوتن کے لیے ایک بڑا انعام ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یوکرینی صدر کے مشیر ولادی میر فیسنکو نے کہا کہ ماریوپول کی صورت حال جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
فیسینکو نے کہا: ’ماریوپول یوکرین کی مزاحمت کی علامت بن گیا ہے اور اس کی فتح کے بغیر پوتن مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھ سکتے۔‘
انہوں نے کہا کہ سقوط ماریوپول امن معاہدے کا راستہ کھول دے گا۔
اس سے قبل جمعے کو بین الاقوامی تنظیم ریڈ کراس نے کہا کہ شہریوں کو بسوں کے ذریعے ماریوپول سے باہر نکالنے کے لیے آپریشن دو روز سے بند پڑا ہے۔
شہر کے حکام نے الزام لگایا کہ روسی ماریوپول تک رسائی کو روک رہے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ شہر میں تقریباً ایک لاکھ مزید لوگ محصور ہیں۔ روسی بمباری اور سڑکوں پر ہونے والی لڑائی سے شہر میں پانی، خوراک، ایندھن اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔
ریڈ کراس کے ترجمان ایون واٹسن نے کہا کہ ماریوپول کے رہائشیوں کو جن ہولناکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، اسے بیان کرنے کے لیے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
عالمی تنظیم نے کہا کہ انخلا کی کوشش کرنے والے 45 بسوں کے قافلے کو روس نے روک دیا اور شہر کے لیے 14 ٹن خوراک اور طبی سامان ضبط کر لیا۔
صدر زیلنسکی نے کہا کہ جمعے کو تین ہزار سے زیادہ لوگ ماریوپول چھوڑنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کیئف کے دورے کے دوران فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں اور یورپی پارلیمنٹ کی صدر روبرٹا میٹسولا سے ٹیلی فون پر انسانی تباہی پر تبادلہ خیال کیا۔
یوکرینی صدر کے مطابق: ’یورپ کو یہ حق نہیں ہے کہ اس صورت حال پر خاموش رہے۔ پوری دنیا کو اس انسانی تباہی کا جواب دینا چاہیے۔‘