روسی وزیر خارجہ سرگے لاوروف نے جمعہ کو کہا کہ ماسکو یوکرین بحران پر بھارت کی ثالثی کے کردار کے لیے تیار ہے۔ وہ جمعرات کو دو روزہ دورے پر بھارت پہنچے تھے۔
سرگے لاوروف نے اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر سے ملاقات کی اور کہا کہ بھارت ہمیشہ بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے اختلافات اور تنازعات کو حل کرنے کے حق میں رہا ہے۔
دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان یہ بات چیت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب امریکہ اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے جس میں امریکہ نے ماسکو کے خلاف امریکی پابندیوں کو روکنے کی کوشش کرنے والے ممالک کو "نتائج" کا انتباہ دیا ہے۔
روسی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ وہ یوکرین کے خلاف جنگ کے بارے میں بھارت کے’غیر جانبدار‘ موقف کو سراہتے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’مغربی دنیا یوکرین کے بحران کی وجہ سے کسی بھی معنی خیز تعلق کو کم کرنا چاہتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ماسکو بھارت کی اس بات کو سراہتا ہے کہ اس نے صورتحال کو یک طرفہ انداز میں نہیں لیا ہے۔‘
سرگے لاوروف نے کہا کہ وہ روسی صدر ولاد ی میر پوتن کی جانب سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو ’ذاتی طور پر پیغام‘ پہنچانا چاہتے تھے۔
انہوں نے کہا :’صدر (پوتن) اور وزیر اعظم باقاعدگی سے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں اور میں اپنی بات چیت کے متعلق صدر کو رپورٹ کروں گا۔ ویسے انہوں نے وزیراعظم نریندر مودی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے اور میں چاہوں گا کہ ذاتی طور پر یہ پیغام پہنچاؤں۔‘
انہوں نے بھارت اور روس کے درمیان تعلقات پر بھی زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ: ’ہم میں وہ توازن ہے جو ہمارے تعلقات کو پائیدار بناتا ہے۔ ہماری مفید ملاقاتیں ہوئی ہیں اور ساتھ ہی 2+2 مذاکرات (دونوں ممالک کی دفاع اور خارجہ امور کی وزارتوں کے درمیان بات چیت) بھی ہوئے ہیں۔‘
’جہاں تک میں سمجھتا ہوں، ہمیں توانائی، سائنس اور دوا سازی کے شعبوں میں منصوبوں پر عمل درآمد جاری رکھنا چاہیے کیونکہ ہم کرونا کے خلاف کامیاب ہو رہے ہیں۔ آپ یوکرین کے متعلق ہمارا موقف جانتے ہیں، ہم کچھ نہیں چھپاتے اور آپ کو مکمل طور پر ہمارا موقف جاننا چاہیے نہ کہ یک طرفہ انداز میں۔‘
روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ: روس ’متوازن عالمی نظام قائم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے جو اس کو پائیدار بنائے۔‘
درحقیقت جب روسی وزیر خارجہ کے دورہ بھارت کی رپورٹس جاری کی گئیں تو امریکہ نے بھارت پر تنقید کی اور کہا کہ یہ ’انتہائی مایوس کن‘ ہے۔
امریکہ کی وزیر تجارت جینا رائمونڈو نے بدھ کے روز واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ:’ اب تاریخ میں صحیح جانب اور امریکہ اور درجنوں دیگر ممالک کے ساتھ کھڑے ہونے کا وقت ہے ، یوکرینی عوام کے ساتھ آزادی، جمہوریت اور خودمختاری کے لیے کھڑے ہونے کا اور روسی صدر پوتن کی جنگ میں مالی اعانت اور معاونت نہ کرنے کا وقت ہے۔‘
انہوں نے اس ملاقات کی اطلاعات کو بھی ’انتہائی مایوس کن‘ قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اخبار انڈین ایکسپریس نے ایک نامعلوم ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ سرگے لاوروف کے بھارت کے دورے میں توقع ہے کہ ماسکو کے خلاف مغربی پابندیوں کے پیش نظر دو طرفہ تجارت کے لیے ’بھارت کی جانب سے کم نرخوں پر روسی خام تیل کی خریداری اور روپے روبل ادائیگی کا نظام‘ قائم کرنے پر توجہ مرکوز ہوگی۔ روس بھارت کو تیل کی فروخت پر بڑی رعایت بھی دے رہا ہے۔
سرگے لاوروف نے کہا: ’اگر بھارت ہم سے کچھ خریدنا چاہتا ہے تو ہم بات چیت کرنے اور باہمی طور پر قابل قبول تعاون کے لیے تیار ہیں۔‘
دریں اثنا، جمعے کو بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر نے کہا:’ہمارے تعلقات میں اضافہ ہوا ہے اور یہ ملاقات وبا سے ہٹ کر بھی ایک مشکل ماحول میں ہوئی ہے۔‘
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی سے بھی دو بار بات کی ہے۔
بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر نے گذشتہ ہفتے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ یوکرین تنازعہ پر بھارت کا موقف’ مضبوط اور مستقل‘ رہا ہے اور وہ تشدد کو فوری طور پر ختم کرنے کا خواہاں ہے۔
بھارت اور چین صرف دو ایسے ممالک ہیں جنہوں نے یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کی مذمت نہیں کی۔
دریں اثنا ایک مقامی عہدیدار نے کہا ہے کہ روسی فورسز کی جانب سے ماریوپول شہر کو امداد پہنچانے کی کوششوں کو روکا جا رہا ہے۔
© The Independent