وزیراعظم عمران خان کو مسند اقتدار سنبھالے تقریبا پونے چار سال ہوچکے ہیں، حالیہ سیاسی صورتحال اور عدالتی فیصلے کے بعد وزیراعظم کے ستارے گردش میں نظر آتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ اس سیاسی بحران تک پہنچے کیسے۔ اس عرصے میں ان کی کارکردگی کیسی رہی؟
وزیراعظم عمران خان کا دور اقتدار چند وجوہات کی بنا پر اپنے پیشروؤں سے مختلف رہا۔ نئے پاکستان کا نعرہ، ملکی معیشت کا نہ بہتر ہونا اور احتساب کی بڑی بڑی باتیں اس دور کا خاصہ رہے۔
بار بار وزیروں، مشیروں اور بیوروکریسی میں تبدیلیاں، کرپشن کے خلاف دعوے، اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف سخت مقدمے اور ان کی پیروی نے عمران خان کے خلاف ایک اندرونی محاذ بھی کھول دیا، جس کے دور رس نتائج عوام نے بھی دیکھے۔ مبینہ دھمکی آمیز کیبل یا مراسلے نے بھی بظاہر ان کو فی الحال کوئی سیاسی فائدہ نہیں دیا ہے۔
لیکن جب ہم ان کے دور اقتدار پر نظر ڈالتے ہیں تو اچھی اور منفی چیزیں دونوں کا امتزاج دکھائی دیتا ہے۔
وہ کون سی ایسی چیزیں ہیں جو مثبت اور منفی رہیں، ایک نظر ڈالتے ہیں:
مثبت پہلو
پین اسلامزم اور خارجہ پالیسی کی سمت
پاکستان کی طرف سے اسلاموفوبیا کے خلاف لائی جانے والی قرارداد کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنایا اور 15 مارچ کو ’انٹرنیشنل ڈے ٹو کومبیٹ اسلاموفوبیا‘ کا نام دیا۔
مسلم دنیا کے لیے اس کامیابی کا کریڈٹ مبصرین نے عمران خان کو دیا۔
وزیراعظم عمران خان نے عہدہ سنبھالتے ہوئے غیرروایتی خارجہ پالیسی اپنائی اور مغربی ترقی یافتہ ممالک کی بجائے جھکاؤ زیادہ خطے کے مسلمان بلاک پر رکھا۔
ترکی اور ملائیشیا جیسے ممالک سے قریبی تعلقات اور مسلم امت کے مسائل اجاگر کرنے پر کچھ حلقوں میں اس کوشش کو پین اسلامزم سے بھی تشبیہ دی گئی۔
بھارت نے 2019 میں بالاکوٹ میں فضائی حملے کیے جس کے جواب میں پاکستان نے آپریشن سوئفٹ ریٹورٹ کیا جس میں بھارتی مگ 21 کو پاکستانی فضائیہ نے مار گرایا اور بھارتی کیپٹن ابھی نندن کو پکڑ لیا۔ اس واقعے کے بعد عمران خان نے خیر سگالی کے طور پر ان کو بھارت کو واپس کردیا۔
اس کے علاوہ مسئلہ کشمیر پر عالمی فورمز میں آواز اٹھانا اور سکھ یاتریوں کے لیے کرتارپور راہداری کھولنا بھی قابل تعریف اقدامات ہیں۔
اعتماد کا ووٹ
2021 مارچ میں وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔ اس وقت انہوں نے 172 کی بجائے 178 ووٹ حاصل کیے تھے۔
انہوں نے یہ فیصلہ سینیٹ انتخاب میں اسلام آباد کی جنرل نشست سے حزب اختلاف کے مشترکہ امیدوار اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی جیت کے بعد کیا تھا۔ یوسف رضا گیلانی نے مشیر برائے خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو شکست دی تھی جس کے بعد ان سے اعتماد کا ووٹ لینا کا تقاضہ کیا گیا۔
خوشی سے سرشار عمران خان نے اس موقع پر اپنی ٹیم اور اراکین کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے پارلیمان میں ان کا ساتھ دیا۔
ٹوورازم اور ماحولیات پر فوکس، کرونا وبا میں اقدامات
وزیراعظم عمران خان نے بارہا ماحولیات کے تحفظ پر آواز اٹھائی اور بلین ٹری سونامی جیسے اقدامات بھی اٹھائے۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن بھی عمران خان کے شجرکاری کی کوششوں کے معترف تھے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے دنیا پر زور دیا ہے کہ وہ وزیر اعظم پاکستان کی مثال کی پیروی کریں۔
عمران خان پاکستان میں سیاحت سے معیشت کو بہتر بنانے کے خواہاں رہے ہیں اور اپنے سوشل میڈیا پر بھی پاکستان کی دلکش جگہوں کی تصاویر شئیر کرتے رہے ہیں۔
عالمی وبا کے دوران جب دنیا میں ہر جگہ غیر واضح صورت حال تھی وہیں وزیراعظم عمران خان نے ٹھوس اقدامات بھی لیے۔
نیشنل آپریشنز اینڈ کمانڈ سینٹر کا قیام، چین سے حفاظتی اشیا کی کھیپ اور کرونا فنڈ قائم کرنا اس میں شامل ہیں۔
منفی پہلو
زبان کا پھسلنا، متنازع بیانات
عمران خان کا دور اقتدار ان کے بیانات کی وجہ سے بھی مشہور رہا ہے جس میں بعض اوقات متنازع بیانات اور زبان کا پھسلنا قابل زکر ہیں۔
کرکٹ میں جارحانہ بولنگ کے لیے جانے جانے والے عمران خان نے سیاست میں بھی یہی عادت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستانی سیاست میں زبان کا استعمال ماضی میں بھی کوئی بہت اچھا نہیں تھا لیکن انہوں نے ماضی کی اس روش کو آگے بڑھایا۔
عمران خان کے غیر محتاط بیانات میں محض سیاست دانوں ہی نہیں بلکہ ریپ جیسے معاملے، اسامہ بن لادن کو ’شہید‘ اور ہزارہ قوم کر انہیں بلیک میل نہ کرنے جیسے بیانات بھی شامل ہیں جبکہ جانور غیرجانبدار ہوتے ہیں جیسی بات بھی ان کے حق میں نہیں گئی۔ بعد میں اس کی انہیں وضاحتیں دینا پڑیں۔
سیاسی مخالفین کو ’چور، ڈاکو، ڈیزل‘ جیسے القابات سے نوازا اور یہی زبان زدِ عام بھی ہوئی۔
ناراض اراکین کو مزید ناراض کرنا
جب ان کی جماعت کے درجن بھر ناراض اراکین قومی اسمبلی اچانک اسلام آباد کے سندھ ہاؤس میں ٹی وی اینکروں کے نرغے میں آئے اور انہوں نے کھل کر اپنی جماعت خصوصا عمران خان کی پالیسیوں پر تنقید کی تو وزیر اعظم نے پہلے اور ان کے شعلہ بیان وزرا نے ان اراکین کی وہ درگت بنائی کہ جیسے انہیں ان کی واپسی کی کوئی امید نہ تھی۔
حال ہی میں عمران خان نے منانے کی بجائے اپنی ہی جماعت کے ناقد اراکین کی طرف توپوں کا رخ کر دیا اور کہا کہ ان کے بچوں سکول نہیں جاسکیں گے، ان کی شادیاں نہیں ہوسکیں گی، انہوں نے کروڑوں روپے لے کر اپنے ضمیر بیچے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر کوئی عقل مند تجربہ کار سیاست دان ہوتا تو شاید ایسا نہ کرتا۔ وہ کہتا کہ یہ تو ہمارے اپنے گھر کے لوگ ہیں اور گھر میں بھی اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ہم انہیں منا لیں گے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں کہا گیا۔ وہ بھی ایک ایسے وزیراعظم کی جانب سے جن کی پارلیمان میں سادہ اکثریت بھی نہیں ہے۔
جس سے ان اراکین کی ناراضی کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی۔
ٹیم کے چناؤ میں غلطیاں
عمران خان کے لیے حکومت قائم کرنے کے بعد سب سے بڑا چیلنج قومی معیشت کی بہتری اور مہنگائی جیسے مسائل رہے۔ بار بار وزرا اور مشیروں کو بدلنے کے باوجود حالات میں وہ بہتری دیکھنے میں نہ آسکی جس کی عوام کو امید تھی۔
اسد عمر کو وزیر خزانہ مقرر کیا لیکن وہ آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ پیکج وقت پر نہ کرسکنے کے الزام میں اپریل 2019 میں تبدیل کر دیے گئے۔ ان کی جگہ عبدالحفیظ شیخ کو لایا اور جلد پھر ہٹایا گیا اور وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر کو خزانہ کی وزارت بھی سونپ دی گئی۔
حماد اظہر تحریک انصاف حکومت کے تیسرے وزیر خزانہ تھے۔ اس کے بعد موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین جو اس سے قبل بھی حکومتوں کا حصہ رہے تھے، کو لایا گیا۔
کابینہ میں بار بار تبدیلیوں سے یہ تاثر تقویت پکڑتا رہا کہ حکومتی ٹیم میں نتائج دینے کی صلاحیت نہیں ہے۔
چند ماہ سے حکومت معیشت میں بہتری کے دعوی تو کر رہی ہے لیکن اس بارے میں رائے منقسم ہے۔ ایسے میں لگتا ہے کہ عمران خان اور ان کی قریبی ساتھیوں کی ٹیم کو احساس ہی نہیں تھا کہ حکومت میں آنے کے لیے کیا کیا تیاریاں کرنا پڑتی ہیں۔
عمران خان کی کوششوں اور نیت پر کسی کو بھی شاید شک نہ ہو لیکن اپنی پہلی اننگ میں وہ اپنی ٹیم کی وجہ سے کافی مار کھا چکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب انہیں دوسری باری کا موقع ملتا بھی ہے یا نہیں لیکن اگر ملتا ہے تو وہ کون سی ٹیم کتنی تیاری کے ساتھ لے کر میدان میں اترتے ہیں۔