سری لنکا میں بڑے معاشی بحران کے سبب وزیر اعظم کے بیٹے سمیت کابینہ کے متعدد ارکان مستعفی ہو گئے ہیں۔ چند روزقبل عوام کی جانب سے احتجاج کے بعد صدر گوتابایا راج پکشے نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق وزیر تعلیم دنیش گنوردنا نے اتوار کی رات مقامی میڈیا کو بتایا کہ:’ ہم نے اپنے استعفے وزیر اعظم کو پیش کر دیئے ہیں۔‘
’صدر اور وزیر اعظم اس پر تبادلہ خیال اور متعلقہ فیصلے کریں گے۔‘
یہ فوری طور پر واضح نہیں ہوسکا کہ پوری کابینہ مستعفی ہوگئی ہے یا صرف کچھ وزرا نے استعفے دیئے۔
نوجوانوں اور کھیلوں کے وزیر نمل راج پکشے نے پیر کو ٹوئٹر پر کہا کہ: ’انہوں نے اس امید پر استعفیٰ دے دیا ہے کہ اس سے’عوام اور حکومت کے لیے استحکام لانے‘ میں مدد ملے گی۔ وہ صدر کے بھتیجے اور وزیر اعظم مہندا راج پکشے کے بیٹے ہیں۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سری لنکا کے صدر پیر کو نئی کابینہ کی تقرری کرنے والے تھے۔ سکیورٹی فورسز ممکنہ تشدد سے نمٹنے کے لیے تیار تھیں کیونکہ امکان تھا کہ ملک میں خوراک، تیل اور ادویات کی قلت کے خلاف مزید مظاہرے ہوں گے۔
کابینہ میں شامل چھبیس وزرا یعنی صدر گوتابایا راج پکشے اور ان کے بڑے بھائی وزیر اعظم مہندا راج پکشے کے علاوہ تمام اراکین نے اتوار کی رات ہونے والے اجلاس میں استعفے پیش کیے۔
اس اقدام سے صدر کے لیے پیر کے روز نئی کابینہ کی تقرری کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔ اس کابینہ میں ممکنہ طور پر کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہوں گے جنہوں نے استعفیٰ دیا ہے۔ کیونکہ حکمران سیاسی خاندان معاشی بحران کے پیش نظر اپنی پوزیشن کو بہتر بنانا چاہتا ہے۔
ملک خوراک، تیل اور دیگر ضروری اشیا کی غیر معمولی قلت کا شکار ہے۔ اس کے ریکارڈ افراط زر اور بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ بھی جاری ہے جبکہ معاشی مشکلات کا تاحال کوئی حل نظر نہیں آرہا۔
حکومت نے موجودہ صورتحال کو 1948 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد بدترین معاشی بحران تسلیم کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ لے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک اعلی سکیورٹی عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ پیر کی صبح 36 گھنٹے کا کرفیو ختم ہونے پر انٹیلی جنس اطلاعات کے باوجود فوجیوں اور پولیس کو ہائی الرٹ رکھا گیا تھا۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ فوج کو جمعہ کو اعلان کردہ ہنگامی حالت کے تحت مشتبہ افراد کو حراست میں لینے کا اختیار دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ:’ ہم مزید مظاہروں کی توقع کر سکتے ہیں۔‘
ایک ہجوم کی جانب سے دارالحکومت کولمبو میں گوتابایا راج پکشے کے گھر پر دھاوا بولنے کی کوشش کے ایک دن بعد صدر نے ایمرجنسی لگا دی تھی۔
اتوار کی شام سینکڑوں افراد نے نعربازی کی لیکن پرامن مظاہرے کیے اورصدر کی جانب سے بحران سے نمٹنے کی مذمت کی۔
قومی پارلیمنٹ کے قریب راجہ گریا پر مظاہرین نے’گھر جاؤ گوٹا، گھر جاؤ گوٹا‘ کا شور مچایا جبکہ مرکزی بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب نیگومبو میں لوگوں نے باآواز بلند کہا کہ ’گوٹا ناکام ہو، ناکام، ناکام ۔‘
اتوار کو پورے دن کے کرفیو سے بڑے مظاہروں کو روک دیا جو فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے منعقد کیے گئے تھے، ان سب کو حکومت نے بلاک کر دیا تھا۔
ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو کھول دیا گیا اور جزوی انٹرنیٹ سنسر شپ10 گھنٹوں کے بعد ختم ہوگئی کیونکہ سری لنکا کے انسانی حقوق کمیشن نے فیصلہ دیا کہ یہ پابندی غیر قانونی ہے۔
کارکنوں نے بتایا کہ وہ پیر کو کئی اہم قصبوں میں بڑے مظاہرے کریں گے تاکہ صدر راج پکشے اور ان کے اہل خانہ کو عہدہ چھوڑنے پر مجبور کیا جاسکے۔
اتحاد کے ایک جونیئر شراکت دار نے اعلان کیا ہے کہ وہ رواں ہفتے اس انتظامیہ چھوڑ دے گی، یہ اقدام مقننہ میں راج پکشے کی اکثریت کو کمزور کر دے گا۔
بہت سے ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ سری لنکا کا بحران حکومتی بدانتظامی، برسوں سے جمع شدہ قرضوں اور ٹیکسوں میں کٹوتی کے غلط مشوروں کی وجہ سے مزید بڑھ گیا ہے۔