آٹھ نومبر، 2018 کو الہان عمر نے اس وقت تاریخ رقم کر دی جب وہ امریکہ میں پہلی صومالی نژاد امریکی قانون ساز منتخب ہوئیں۔
الہان عمر آج بدھ کی صبح پاکستان پہنچی ہیں جہاں ان کی وزیراعظم شہباز شریف، سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف اور سابق وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی ہے۔
الہان عمر کی امریکہ میں انتخابی جیت نسلی و علاقائی تعصب کے خلاف ایک متبادل بیانیہ پیش کرتی ہے۔
’امریکہ تارکین وطن کی سرزمین ہے اور زیادہ تر لوگ یہاں مواقع کی تلاش میں آتے ہیں۔ یہ امریکہ میں اپنے حقوق کے لیے لڑنے کا وقت ہے کہ جو ہم کر سکتے ہیں۔‘
الہان خود ایک تارک وطن ہیں جو بچپن میں خانہ جنگی سے متاثرہ آبائی ملک صومالیہ سے امریکہ آئیں۔
’جنگ اس وقت شروع ہوئی جب میں آٹھ سال کی تھی، ایک رات ملیشیا نے ہمارے گھر میں گھسنے کی کوشش کی اور باہر دیواریں گولیوں سے چھلنی ہو گئیں۔‘
کچھ ہی عرصے بعد الہان اور ان کا خاندان اپنا گھر چھوڑ کر پڑوسی ملک کینیا میں پناہ گزین کیمپ منتقل ہو گیا۔
’میرے پاس اب اپنا ایک بستر نہیں تھا، نہانے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ ہم مکمل بے گھر تھے۔ میں پانی بھر کے لاتی تو دن کے اختتام پر مجھے ایک شلنگ کا انعام ملتا، جس سے میں گاؤں کے ایک عارضی تھیٹر فلم دیکھنے جاتی۔‘
ممباسا کے پناہ گزین کیمپ میں چار سال گزرنے کے بعد الہان اور ان کے خاندان کو امریکہ جانے کے لیے سپانسر کیا گیا، وہ نیو یارک پہنچے اور آرلنگٹن، ورجینیا چلے گئے جہاں 12 سالہ الہان نے مڈل سکول میں داخلہ لیا۔
’میں کئی سال تعلیم سے محروم رہی، اس لیے میں انگریزی نہیں بول سکتی تھی۔ میں اور میری بہنوں نے لگاتار مشق سے انگریزی سیکھی، کیپشن سمیت ٹی وی دیکھ کر، پڑھ کے، اور ایک دوسرے کے سامنے مشکل الفاظ دہرانے کی کوشش کی۔‘
ڈھائی سال کے بعد ان کا خاندان منیاپولس چلا گیا، جہاں ان کو ہائی سکول نامی ایک اور مشکل کا سامنا تھا۔
’بہت سارے بچے نہیں جانتے تھے کہ مختلف پس منظر کے لوگوں کے ساتھ کیسے رہنا ہے، اس لیے ہم نے اتحاد اور تنوع کا پروگرام بنایا، ہم ایک ساتھ کھانا کھاتے اور ایک دوسرے کو کہانیاں سناتے۔ ‘
ہائی اسکول میں اقوام متحدہ کے کمیونٹی آرگنائزنگ گروپ نے الہان کے مستقبل کی بنیاد رکھی، جو بعد ازاں نارتھ ڈکوٹا سٹیٹ یونیورسٹی میں سیاسیات اور بین الاقوامی پالیسیوں کا مطالعہ کرکے پروان چڑھا۔‘
’میں سمجھتی ہوں کہ خواتین اور اقلیتیں اکثر کسی چیز کے لیے مدعو کیے جانے کی اجازت کا انتظار کرتی ہیں۔ یہ غلط ہے۔‘
اگرچہ وہ ہمیشہ سے سیاست کے بارے میں پرجوش رہی ہیں، لیکن ماں بننے کے بعد ان کا جوش مزید بڑھ گیا ہے۔
’میرے بچے وہ وجہ ہیں جو مجھے کچھ بہتر کی کوشش پر مجبور کرتے ہیں۔‘
ان کے شوہر کا نام احمد ہرسی ہے جن سے ان کے تین بچے ہیں۔ بیٹا عدنان عمر 11سال، بیٹی الواد عمرچار سال اور بیٹی اسرا عمر13 سال۔
الہان کو امید ہے کہ وہ اپنی نئی سٹیٹ ہاؤس پوزیشن کی مدد سے تبدیلی لا سکیں گی۔ ’یہ جانتے ہوئے کہ میرا تعلق ایک ایسی ریاست سے ہے جہاں بہت سے لوگ تبدیلی اور ترقی کی راہ میں کامیابی سے گامزن ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم اٹھیں گے اور انصاف اور مساوات کے لیے لڑیں گے۔ آخرکار محبت نفرت پر غالب آجائے گی۔‘
الہان اکثر نفرت پر مبنی تقاریر کا نشانہ بن چکی ہیں۔ سوشل سائنس ریسرچ کونسل کی ایک تحقیق کے مطابق 2018 کے وسط مدتی انتخابات سے پہلے کے ہفتوں میں مسلم امیدواروں کے بارے میں ایک لاکھ 13 ہزار ٹویٹس میں سے زیادہ تر کا بڑا ہدف وہ تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
14 جولائی، 2019 کو ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ سکواڈ، ایک گروپ جس میں الہان عمر اور تین دیگر کانگریسی خواتین شامل ہیں جو امریکہ میں پیدا ہوئیں، کو ان مقامات پر’واپس جانا‘ چاہیے جہاں سے وہ آئی تھیں۔
اس کے جواب میں الہان نے کہا کہ ٹرمپ ’سفید قوم پرستی‘ کو ہوا دے رہے ہیں۔
اگست 2019 میں ان پر اور رکن پارلیمان راشدہ طلیب کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔
(سابق) اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے اس پابندی کی وجہ اسرائیل کے بائیکاٹ کا مطالبہ کرنے والے لوگوں کے اسرائیل میں داخلے کے خلاف اسرائیلی قانون کو قرار دیا۔
نومبر 2021 میں رپبلکن رکن پارلیمنٹ لورین بوئبرٹ نے کہا کہ انہوں نے الہان عمر کے ساتھ ایک لفٹ شیئر کی تھی اور انہوں نے اور کانگریس کی عمارت میں تعینات پولیس افسر دونوں نے انہیں غلطی سے دہشت گرد سمجھا۔ بوئبرٹ نے ان کو ’جہاد سکواڈ‘ کہا۔