ایک تازہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے ایسے گھرانوں کے لیے جن کے دو سے زائد بچے ہیں، چائلڈ بینیفٹ میں کمی کر دی ہے جس سے خواتین اسقاط حمل کرانے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو گئی ہیں تاکہ وہ مناسب طور پر اپنے خاندان کی کفالت کر سکیں۔
برطانوی حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی ’ٹو چائلڈ لمٹ‘ (دو بچوں کی حد) کی پالیسی سے تیسرا یا اس سے اگلا بچہ پیدا کرنے والے خاندانوں کے لیے ٹیکس کریڈٹ اور یونیورسل کریڈٹ کی وصولی بند کر دی گئی ہے۔
چائلڈ پاورٹی ایکشن گروپ (سی پی اے جی) اور چرچ آف انگلینڈ کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق یہ حکومتی اقدام بچوں کو غربت میں دھکیلنے کے مترادف ہے جس سے وہ نہ صرف صحت مند غذا سے محروم ہو سکتے ہیں بلکہ کھیلوں کی سرگرمیوں میں بھی حصہ نہیں لے پائیں گے۔
یہ رپورٹ اس حکومتی پالیسی سے متاثرہ 430 خاندانوں پر کیے گئے سروے اور خیراتی تنظیموں کی جانب سے فراہم کیے گئے شواہد پر مبنی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایسی خواتین جو احتیاطی تدابیر کی ناکامی کے بعد منصوبہ بندی کے بغیر حاملہ ہو گئی تھیں، انہوں نے اسقاط حمل میں ہی عافیت جانی۔
اس پالیسی کے خلاف مہم چلانے والوں نے اسے ’حکومتی ظلم‘ اور بے رحمی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ پہلے پیدا ہونے والے بچوں کی اہمیت بعد میں پیدا ہونے والے بچوں سے زیادہ ہے۔
دو بچوں کی حد پالیسی ان اقدامات کا حصہ ہے جس کا اعلان 2015 میں کیا گیا تھا اور اس کا مقصد بینیفٹ پیکیج میں تبدیلی کرنا تھا جس سے نوجوان خاندانوں کی قوت خرید میں کمی واقع ہوئی ہے۔
اپریل 2017 سے کم آمدنی والے خاندانوں کو تیسرے یا اس سے اگلے بچوں کے لیے 2،780 پاونڈ فی بچہ فی سال ٹیکس کریڈٹ اور یونیورسل کریڈٹ کی صورت میں فراہم کی جانے والی اضافی حکومتی مدد کو ختم کر دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس پالیسی سے اب تک ایک لاکھ 60 ہزار خاندان متاثر ہو چکے ہیں جبکہ 2023 یا 2024 تک مزید تین لاکھ بچے غربت کا شکار ہو جائیں گے اور اگلے پانچ برس بعد غربت سے متاثرہ بچوں کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ جائے گی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2024 تک تین یا اس سے زیادہ بچوں والے خاندانوں میں نصف بچے غربت سے شدید متاثر ہوں گے۔
سی پی اے جی کے چیف ایگزیکیٹو ایلسن گراہم نے حکومت سے اس ظالمانہ پالیسی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ ہم بیمار بچوں کو اپنے ہسپتالوں سے کیسے باہر نکالیں گے یا انہیں سکول جانے سے کیسے روکیں گے؟ اب بھی دو بچے کی حد کی پالیسی کے باعث مشکل وقت سے گزرنے والے خاندان اس مدد سے محروم ہیں جو ان کو سماجی سیکیورٹی نظام سے ملنی چاہیے تھی۔ اس سے مزید بچے غربت کا شکار ہو جائیں گے۔‘
بشپ آف ڈرہم رٹ ریوڈ پال بٹلر کے مطابق یہ پالیسی بنیادی اصول کے خلاف ہے اور بہت سے خاندانوں اور بچوں کو غربت میں دھکیل رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’یہ بات غلط ہے کہ کچھ بچوں کو تو مدد ملے اور کچھ کو نہیں۔ بچوں میں غربت کو روکنے کے لئے مشترکہ کوشش کے حصے کے طور پر اس پالیسی کو ختم کیا جانا چاہئے۔‘
سروے میں حصہ لینے والے تقریبا تمام والدین نے کہا کہ انہیں لازمی ضروریات کو 95 فی صد تک کم کرنا پڑا۔
ایک مریض نے کہا کہ وہ ایک ہفتے تک انہیلرز خریدنے کی سکت نہیں رکھ پائے کیونکہ ان کو اپنے بچوں کے کھانے کے بارے میں زیادہ فکر تھی، وہ صرف دعا ہی کر سکتے تھے۔
لیسا نامی ایک ماں جن کے شوہر کل وقتی ملازم ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بچوں کے لیے صحت بخش غذا خریدنے سے قاصر ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ’میں انہیں پھل کھلانا چاہتی تھی۔ مجھے یاد نہیں آتا آخری بار میں نے کب ڈنر کے لیے تازہ کھانا بنایا تھا۔ میں انہیں فریزر والا کھانا کھلا رہی ہوں۔‘
ایک اور ماں باپ (معذوری کے باعث کام سے قاصر باپ) اپنے چار بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے خود سارا دن بھوکے رہتے تھے۔
لیبر پارٹی کی شیڈو ورک اینڈ پینشن سیکریٹری مارگریٹ گرین ووڈ کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس رپورٹ میں موجود شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے فیصلوں پر نظرِثانی کرنی چاہیے۔
’کئی خاندانوں کو اس ظالمانہ پالیسی کے باعث بنیادی ضروریات سے محروم کیا جارہا ہے اور اس کے نتیجے میں ہزاروں خاندانوں کو غربت میں دھکیل دیا گیا ہے۔‘
’دو بچوں کی حد والی پالیسی کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کو نہ صرف کھلونے یا اسکول کے ٹرپ چھوڑنا پڑتے ہیں بلکہ وہ کھانے اور نئے کپڑوں سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ اس سے یہ ایک پیغام بھیجا جاتا ہے کہ ایک بچہ دوسرے سے اس لیے زیادہ محروم ہے کیوں کہ وہ اس کے بعد پیدا ہوا ہے۔‘
تحقیق کے دوران کیے گئے انٹرویوز میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ دو بچوں کی حد والی پالیسی سے خواتین کو گھریلو تشدد اور غلط برتاو کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔
تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ دو بچے کی حد والی اس پالیسی سے پناہ گزینوں کو برطانیہ میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان میں ہجرت کے صدمے کے تجربات کے بعد اپنےخاندان اور زندگی کو دوبارہ تعمیر کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔
محققین نے کہا کہ اس پالیسی کے مالی اثرات سے نہ صرف بچوں کی بنیادی ضروریات متاثر ہو رہی ہیں بلکہ یہ بچوں کی سکول کی سرگرمیاں بھی کم کرسکتے ہیں۔
دوسری جانب حکومت نے اس پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ والدین کو انتخاب میں مدد فراہم کرتی ہے۔
ایک سرکاری ترجمان نے کہا: ’یہ پالیسی انصاف کو یقینی بنانے میں مدد فراہم کرتی ہے کیوں کہ یہ والدین کو مالیاتی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے انتخاب کا موقع دیتی ہے۔ اس میں خاندانوں کا تحفظ یقینی بنایا گیا ہے اور اس کو مزید منصفانہ اور بہتر بنانے کے لیے اس سال اس پالیسی میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔‘
غربت سے نمٹنا حکومت کی اہم ترجیح ہے۔ ہم عوام کی فلاح و بہبود پر سالانہ 95 ارب پاونڈ خرچ کرتے ہیں اور دس لاکھ سے زائد بچوں کو سکولوں میں مفت کھانا مہیا کرتے ہیں. ہم خاندانوں کو روزگار فراہم کرکے ان کی زندگیوں کو بہتر بنا رہے ہیں۔‘
© The Independent