رواں ماہ کی 21 تاریخ کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے جموں میں تعینات بھارتی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل دیویندر آنند نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل ’پی آر او ڈیفنس جموں‘ سے کچھ تصویریں ٹویٹ کیں۔
یہ تصویریں بھارتی فوج کی طرف سے ضلع ڈوڈہ کے ارنورہ نامی علاقے میں مقامی مسلمانوں کے لیے منعقد کی جانے والی ایک افطار پارٹی کی تھیں۔ ان تصویروں میں بھارتی فوج کے افسر و اہلکار نہ صرف مقامی مسلمانوں کے ساتھ افطار کرتے ہوئے بلکہ نماز پڑھتے ہوئے بھی نظر آئے۔
بھارتی فوج کے ترجمان نے تصویروں کے ساتھ کیپشن میں لکھا تھا: ’سیکولرازم کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے بھارتی فوج کی جانب سے ضلع ڈوڈہ کے ارنورہ میں افطار کا اہتمام کیا گیا ہے۔‘
پھر جب مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے مشہور ٹی وی چینل ’سدرشن نیوز‘ کے چیف ایڈیٹر سریش چوہانکے کی نظر ان تصویروں پر پڑی تو انہوں نے ہندی زبان میں لکھا: ’اب یہ بیماری بھارتیہ سینا (بھارتی فوج) میں بھی گھس گئی ہے؟ دھکت (افسوسناک) ۔۔۔۔۔۔ ‘
سریش چوہانکے کے ان الفاظ کی دوسرے شدت پسند ہندوؤں نے تائید کی تو فوج نے افطار پارٹی منعقد کرنے کے اپنے فیصلے کا دفاع کرنے کی بجائے افطار پارٹی کی تصویروں والی ٹویٹ ہی ڈیلیٹ کر دی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج کا ایک ’نفرت انگیز‘ اور ’معمولی شخص‘ (سریش چوہانکے) کے الفاظ پر اپنی ٹویٹ ڈیلیٹ کرنے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج کے بھارت میں ’فرقہ پرست افراد‘ کتنے طاقتور ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’شورش زدہ کشمیر‘ میں بھارتی فوج افطار پارٹیاں مسلمانوں کی محبت میں نہیں بلکہ ’آپریشن سدبھاونا‘ کے تحت مقامی لوگوں کا دل و دماغ جیتنے اور انسداد عسکریت پسندی کی کارروائیوں میں ان کی مدد حاصل کرنے کے لیے گذشتہ تین دہائیوں سے منعقد کرتی آئی ہے۔
افطار پارٹی کی تصویروں والی ٹویٹ حذف کرنے کی کارروائی پر جہاں حکومتی حلقے نے خاموشی اختیار کی، وہیں سوشل میڈیا پر کئی سابق فوجی افسروں سمیت درجنوں نامور شخصیات نے کھل کر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
تاہم اپنی سالمیت اور خودمختاری پر اٹھنے والے سوالات کا کسی تحریری بیان میں جواب دینے کی بجائے بھارتی فوج نے 25 اپریل کو سری نگر کے مضافات میں واقع اولڈ ایئر فیلڈ رنگریٹ میں ایک افطار پارٹی کا اہتمام کیا جس کی تصویریں میڈیا کو بھیجی گئیں اور سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔
ان تصویروں میں کشمیر میں تعینات فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ڈی پی پانڈے سمیت درجنوں فوجیوں کو ایک مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
بی جے پی اور افطار پارٹیاں
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے سوانح نگار اور معروف سیاسی تجزیہ نگار نیلانجن مکھوپادھیائے نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ آج کے بھارت میں مسلمانوں کے تہواروں میں شرکت کرنا جرم بن گیا ہے۔
’بی جے پی کے لیے افطار پارٹیوں کا اہتمام نہ کرنا ایک سیاسی ہتھیار ہے۔ پہلے نریندر مودی نے گجرات میں اور پھر دہلی آ کر یہاں بند کیں۔ اس کے بعد دوسرے اعلیٰ اداروں جیسے صدر جمہوریہ کے آفس نے بھی یہ پارٹیاں منعقد کرنا بند کر دیں۔
’دیکھا دیکھی میں دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی گھبرائے کہ ہم نے افطار پارٹی کا اہتمام کیا تو مسلمانوں کے دوست کہلائیں گے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ آج کے بھارت میں مسلمانوں کا تہوار منانا جرم بن گیا ہے۔
’لیکن جہاں تک میں جانتا ہوں غیر مسلم ممالک میں اب بھی حکومتی سطح پر افطار پارٹیاں منعقد ہوتی ہیں۔ ان میں بھارت کے مسلمانوں اور ہندوؤں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ جس کی مثال یہ ہے کہ مجھے بھی ایک غیر مسلم ملک کے سفارت خانے سے افطار پارٹی کی دعوت ملی ہے اور میں لازمی طور پر شرکت کروں گا۔‘
نیلانجن مکھوپادھیائے کہتے ہیں کہ بھارت ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا بلکہ ایک وہ بھی زمانہ تھا جب اس ملک میں ہندو محرم کے جلوسوں میں شرکت کرتے تھے اور مسلمان ہندوؤں کے تہواروں میں۔
’اکثریتی طبقے (ہندوؤں) نے جو سوچ اختیار کی ہے کہ یہ ملک صرف ہمارا ہے اس (سوچ) کی جڑیں 130 سال پرانے ہندوستان میں ملتی ہیں۔ 1893 میں بال گنگا دھر تلک کی جانب سے گنیش چترتی کے تہوار کو سڑکوں پر منانے کے اقدام نے اس سوچ کی بنیاد ڈالی۔ تب سے اس تفریق و تقسیم کو مزید بڑھانے کی کوششیں جاری ہیں اور موجودہ حکومت میں یہ اپنے عروج کو پہنچی ہیں۔‘
معروف بھارتی صحافی ضیا السلام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بی جے پی نے افطار پارٹیوں کا اہتمام کرنا اس وجہ سے بند کیا ہے کیوں کہ یہ مسلم ثقافت کی ایک علامت ہے۔
’بی جے پی کا ایجنڈا واضح ہے۔ وہ مسلمانوں کی تمام علامتوں کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ ان میں سے افطار ایک چھوٹی سی چیز ہے۔
’مسجدوں پر جگہ جگہ بھگوا جھنڈے لہرانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ گائے ذبح کرنے کے نام پر مسلمانوں کی لنچنگ ہو رہی ہے۔ حجاب پر حالیہ تنازع یا اب اذان پر ان کے اعتراض کو ہی دیکھ لیں۔ یعنی جو جو چیزیں مسلمانوں یا مسلم معاشرے کا حصہ رہی ہیں اُن پر حملے ہو رہے ہیں۔‘
سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار معصوم مرادآبادی کہتے ہیں کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ اس ملک کے صدر جمہوریہ اور وزیراعظم باقاعدہ اپنے ہاں افطار پارٹی اور عید ملن منعقد کرتے تھے اور خود بی جے پی کے آنجہانی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے بھی خیر سگالی کے اس جذبہ کو برقرار رکھا تھا۔
’لیکن اب اس ملک میں مسلمانوں یا ان سے متعلق کسی بھی چیز کا نام لینا گناہِ عظیم ہو گیا ہے۔ حالاںکہ اس قسم کی سیاسی دعوتوں سے مسلمانوں کو کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ سرگرمیاں بھارت میں ان کی سرگرم موجودگی کا ثبوت ہوا کرتی تھیں جو اب خواب و خیال ہو چکی ہیں۔‘
بی جے پی کی طرح کانگریس کا بھی اب ایسی تقریبات کے انعقاد سے پرہیز کرنے سے متعلق پوچھے جانے پر معصوم مرادآبادی کا کہنا تھا: ’کانگریس کی حالت سافٹ ہندوتوا اپنانے سے بہت خراب ہوئی ہے۔ وہ ایک نظریہ پر ٹک نہیں پائی۔ کنفیوژن سے کوئی کام نہیں ہوتا ہے۔‘
’مقصد سیاسی مفاد حاصل کرنا‘
بھارت کے مختلف شہروں سے شائع ہونے والے مشہور اردو اخبار انقلاب کے سابق مدیر شکیل حسن شمسی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہاں افطار پارٹیوں کے رجحان میں 1980 کی دہائی کے ابتدا میں تیزی آئی۔
’تب تقریباً ہر ایک سیاسی رہنما اس کا اہتمام کرتا تھا۔ لوگوں نے شروع میں اس رجحان کو پسند بھی کیا۔ مگر مقصد سیاسی مفاد حاصل کرنا ہوتا تھا کیوں کہ ان میں مدعو کیے جانے لوگ سیاسی کارکن ہوتے تھے یا وہ لوگ جو سیاسی رہنماؤں کے کسی نہ کسی کام آتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میرا ماننا ہے کہ افطار پارٹیوں کا اہتمام مسلمانوں کو خود کرنا چاہیے اور ان میں غیر مسلمانوں کو شرکت کی دعوت دی جانی چاہیے۔ ان افطار پارٹیوں کا مقصد اتحاد کا فروغ ہو تو زیادہ بہتر ہے۔‘
راجستھان کے شہر جودھ پور میں واقع مولانا آزاد یونیورسٹی کے صدر اور دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس پروفیسر اختر الواسع نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ جب بھارت میں بڑے پیمانے پر افطار پارٹیاں ہوتی تھیں تو مسلمانوں کا ہی ایک طبقہ ان کی مخالفت کرتا تھا۔
’میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے سیکولر کردار کا افطار پارٹیاں معیار اور پیمانہ نہیں۔ بلکہ عام زندگی میں اگر آپ ایک دوسرے سے حُسن اخلاق سے پیش آتے ہیں اور ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا خیال رکھتے ہیں تو یہ سیکولرازم ہے۔‘
فوج کی افطار پارٹیاں
ضیا السلام کہتے ہیں کہ فوجی ترجمان کی حالیہ کارروائی نے سوال پیدا کیا ہے کہ جو فوج ایک معمولی ٹی وی چینل کے دباؤ میں آکر اپنی ٹویٹ ڈیلیٹ کرتی ہے تو کیا وہ بھارت کے لیے کھڑا ہو سکتی ہے؟
’بھارتی فوج ہر سال افطار پارٹیوں کا اہتمام کرتی ہے۔ اس بار بھی فوج نے یہ روایت برقرار رکھی لیکن ایک نفرت پھیلانے والے چینل سدرشن ٹی وی کی مخالفت کے بعد فوج نے افطار پارٹی کی تصویریں ڈیلیٹ کیں جو ایک افسوسناک بات ہے۔‘
نیلانجن مکھوپادھیائے کا کہنا ہے کہ فوجی ترجمان کے ٹویٹ ہٹانے سے فوجی کیمپوں یا چھاونیوں میں افطار کلچر ختم نہیں ہو گا۔
’فوج میں ہر ایک کا تہوار مل کر منانے کا کلچر ہے۔ میں جس شہر میں بڑا ہوا وہاں ایک بڑی فوجی چھاونی ہے۔ میں نے بچپن میں دیکھا ہے کہ وہاں مندر، مسجد اور گردوارہ ایک ہی جگہ بنے ہیں۔‘