رائل انڈین نیوی دوسری عالمی جنگ تک ایک محدود پیمانے کی جنگی طاقت تھی جس میں 20 ہزار کے قریب نیوی اہلکار تھے جن کے پاس صرف آٹھ بحری جہاز تھے اور ان جہازوں کے نام بھی ہندوستانی تھے جیسے ستلج، جمنا، خیبر، بلوچستان، راجپوتانہ، وغیرہ۔
ان میں سے ایک راولپنڈی نام کا بحری جہاز بھی تھا جو دوسری عالمی جنگ کے دوران ہٹلر کے ایک جنگی جہاز کا نشانہ بنا اور ڈوب گیا، جس کی وجہ سے 238 افراد ہلاک ہو گئے جن میں 39 افسروں سمیت جہاز کا کمانڈر کیپٹن کینیڈی بھی شامل تھا۔ جو 22 لوگ بچ گئے انہیں جرمن فوج نے جنگی قیدی بنا لیا۔
1857 کی جنگ آزادی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ تاج برطانیہ نے لے لی تھی اور اس نے اپنی فوج ہندوستان میں تعینات کر دی تھی۔ ہندوستانی بحریہ کا نام ہر میجسٹیز انڈین نیوی رکھا گیا تھا جس کے دو ڈویژن تھے، مشرقی ڈویژن کلکتہ اور مغربی بمبئی میں تعینات تھا۔
پہلی عالمی جنگ میں بھی ہندوستانی بحریہ شریک ہوئی تھی تاہم 1934 میں اس کا نام تبدیل کر کے رائل انڈین نیوی رکھ دیا گیا تھا۔ تب اس کے ملازمین کی تعداد 20 ہزار کے لگ بھگ تھی۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانیہ میں انڈین بحریہ کے لیے چھ مزید جنگی جہاز بنائے گئے تھے تاہم راولپنڈی نامی جہاز، جو لندن اور بمبئی کے درمیان مسافروں کو لانے اور لے جانے کے لیے استعمال ہوتا تھا، اسے دوسری عالمی جنگ کی وجہ سے اسلحہ بردار بنا کر رائل انڈین نیوی میں شامل کر دیا گیا۔
16 ہزار 697 ٹن وزنی اس جہاز کو برطانیہ کی ’دی اولڈ پیننسولر اینڈ اورینٹل سٹیم نیوی گیشن کمپنی‘ نے 1925 میں بنایا تھا، جس میں درجہ اول کے 307 اور درجہ دوم کے 288 مسافر سفر کر سکتے تھے۔ یہ پہلا جہاز تھا جس میں مچھلیوں اور پھلوں کو محفوظ رکھنے کے لیے فریج لگائے گئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری عالمی جنگ کے دوران جب برطانیہ کی بحریہ کو جہازوں کی کمی محسوس ہوئی تو اس کی نظر ایچ ایم ایس راولپنڈی پر پڑی اور اس نے 26 اگست 1939 کو یہ جہاز انڈین نیوی کے لیے حاصل کر لیا۔ لیکن جہاز حاصل کرنے کے بعد بھی اس کا نام اور اس کا سویلین عملہ برقرار رکھا گیا جن میں سے زیادہ تر پہلے ہی رائل نیوی کے ریزرو فوجی تھے۔
جہاز کی چمنیاں اتار کر ان کی جگہ تین سے چھ انچ دھانے والی گنیں نصب کر دی گئیں۔ اسے ضروری جنگی ساز و سامان سے لیس کرنے کے بعد جرمنی کے جہازوں کے تعاقب میں روانہ کیا گیا جو آئس لینڈ اور گنی سینا میں موجود تھے اور یہاں اپنی دھاک بٹھائے ہوئے تھے۔ انہوں نے برطانوی جہازوں کو دیکھتے ہی حملہ کر دیا۔
ایچ ایم ایس راولپنڈی نامی جہاز نے بہادری سے خوب مقابلہ کیا اور مخالف جہازوں پر گولے برسائے۔ مخالف جہاز بڑی گنوں سے لیس تھے اس لیے 13 منٹ کی بمباری کے دوران جہاز میں آگ لگ گئی، جس کے دوران جہاز کے کمانڈر سمیت 238 افراد ہلاک ہو گئے۔ یوں 23 نومبر 1939 کو یہ جہاز ڈوب گیا۔ جرمنی کے جنگی جہاز نے 26 افراد کو بچا لیا جبکہ ایچ ایم ایس راولپنڈی کے ساتھ دوسرا برطانوی جہاز چترال بھی تھا جس نے 11 افراد کو بچایا۔
چھ دسمبر1939 کو ونسٹن چرچل نے ایچ ایم ایس راولپنڈی میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں تقریر کرتے ہوئے کہا: ’جس طرح راولپنڈی شپ پر تعینات فوجوں نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کیں اس پر پارلیمنٹ اور برطانوی قوم انہیں شاندار خراج تحسین پیش کرتی ہے۔‘
بحریہ کی طرح ہندوستانی فوج کی تعداد بھی دوسری عالمی جنگ شروع ہونے پر محدود تھی جو کل تعداد دو لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ جب 1945 میں جنگ ختم ہوئی تو اس کی تعداد 25 لاکھ تک پہنچ چکی تھی جن میں سے اڑھائی لاکھ صرف وہ فوجی تھے جنہیں ریاستوں اور راجواڑوں کے نوابوں نے تاج برطانیہ کے تحفظ کے لیے فراہم کیا تھا۔
یہ تاریخ میں رضا کاروں کی سب سے بڑی فوج تھی جس نے تین براعظموں یورپ، ایشیا اور افریقہ میں تاج برطانیہ کا دفاع کرتے ہوئے 87 ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کیا، جس کی وجہ سے برطانیہ کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز وکٹوریہ کراس جن فوجیوں کا ملا ان میں سے 15 فیصد ہندوستانی تھے۔
برطانیہ اور امریکہ 1941 میں معاہدہ اٹلانٹک پر دستخط کر چکے تھے جس کے تحت کالانیوں کو آزادی دی جانی تھی۔ تاہم آزادی کی ایک وجہ وہ 25 لاکھ ہندوستانی فوجی بھی تھے جو اب تربیت یافتہ تھے اور تاج برطانیہ ان کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا تھا اس لیے بغاوت کے پیش نظر برطانیہ کی بہتری اسی میں تھی کہ وہ جلد از جلد اپنی جان خلاصی کروا لے۔