آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں عمدہ کارکردگی دکھانے والے پاکستانی وکٹ کیپر بیٹر محمد رضوان نے سیمی فائنل سے قبل 30 گھنٹے ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ یعنی آئی سی یو میں گزارے تھے۔
دلچسپ امر یہ تھا کہ آسٹریلیا کے خلاف کھیلے جانے والے اس اہم میچ میں محمد رضوان نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 67 رنز سکور کیے تھے۔ ان کے کھیل اور کھیلنے کے انداز سے بالکل بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ وہ 30 گھنٹے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد میچ کھیلنے گئے ہیں۔
البتہ میچ کے بعد دنیا بھر سے کرکٹرز اور شاتقین نے انہیں خوب داد و تحسین سے نوازا تھا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے ٹیم کے چیف میڈیکل آفیسر نجیب اللہ سومرو اور محمد رضوان کی ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں بلے باز نے طبیعت خراب ہونے سے لے کر ہسپتال پہنچنے اور آئی سی یو میں 30 گھنٹے گزارنے کی روداد سنائی۔
گفتگو کے آغاز میں محمد رضوان نے نجیب اللہ سے کہا: ’اس وقت میری کیا حالت تھی یہ تو مکمل طو پر یاد نہیں مگر یہ اچھی طرح یاد ہے کہ آپ سے بات چیت کے بعد جب کمرے میں گیا تو کندھے میں اور آگے درد ہوا، آپ کو بتایا تو آپ نے کہا کہ ساری چیزیں چھوڑو اور فورا کمرے سے نکلو۔‘
’فیملی میرے ساتھ تھی اور مشکل وقت تھوڑا اس لیے تھا کہ میں رک رک کے سانس لے رہا تھا اور سانس لینے کے لیے خود کو ’پش‘ کر رہا تھا۔ آپ نے کہا کہ ایمرجنسی ہے سو فورا ہسپتال روانہ ہوئے۔ جب ہسپتال پہنچے تو میری سانس تقریباً رک چکی تھی اور ہر چیز مجھے دھندلی نظر آ رہی تھی۔‘
محمد رضوان نے مزید بتایا کہ ’ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد میں آپ سب سے پوچھ رہا تھا کہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے مگر آپ لوگ بتا نہیں رہے تھے۔ نرس نے مجھے آکر کہا گھبرانا نہیں ہے جس کے جواب میں میں نے کہا کہ اگر میرا رزق ہوا تو میں زندہ ہی ہوں اگر رزق نہیں ہوا تو آپ جو کچھ بھی کر لیں کچھ ہو نہیں سکتا۔‘
’پھر اس کے بعد آپ لوگ آئے اور کہا کہ الحمدللہ سب ٹیسٹ ٹھیک ہیں اور صبح تک آپ ادھر ہو مگر جب صبح آپ لوگ آئے تو پھر کہا کہ شام تک رہو۔ اس دوران میرے بہت سے ٹیسٹ ہوئے صرف ناخنوں اور سر کے بالوں کے ٹیسٹ رہ گئے تھے۔ میں نے نرس سے پوچھا کہ مجھے سچ بات بتائیں کہ کیا ہے تو انہوں نے کہا رضوان اگر آپ 20 منٹ لیٹ ہو جاتے تو آپ کی یہ دونوں نالیاں پھٹ جاتیں۔ اب آپ کو کم از کم ایک ہفتہ یہاں گزارنا پڑے گا۔‘
رضوان کا کہنا تھا کہ میں نے جواباً کہا: ’ایسا کیسے ہو سکتا ہے ہمارا سیمی فائنل ہے، جس پر نرس نے کہا کہ یہ آپ کی مرضی سے نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر آئے تو انہوں نے کہا کہ رضوان میری خواہش ہے کہ آپ سیمی فائنل کھیلیں، میں نے بھی کہا کہ میری خواہش ہے کہ میں سیمی فائنل کھیلوں کیوں کہ پاکستان کو میری ضرورت ہے۔‘
محمد رضوان نے کہا کہ ’ضرورت کا مطلب یہ نہیں کہ ٹیم میں دیگر اچھے کھلاڑی نہیں ہیں، میرا ایسا مطلب بالکل بھی نہیں تھا، یقینا مجھ سے بہت بہتر کھلاڑی بینچز پر موجود تھے۔ میرا مقصد یہ تھا کہ ہماری ٹیم کا ایک تسلسل بن چکا تھا اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اس لیے میں کوشش کر رہا تھا کہ سیمی فائنل میں یہ تسلسل برقرار رہے۔‘
ان کے مطابق: ’اسی طرح صبح شام کرتے کافی وقت گزر گیا۔ ڈاکٹر نے مجھ سے کہا کہ آپ میچ کے دن ٹیم کو جوائن کرلینا مگر میں نے کہا کہ ایسا کرنے سے کپتان کا مجھ پر اعتماد کم ہو جائے گا لہٰذا مجھے آج ہی جانا ہے۔ سو ڈاکٹرز نے مجھے دوائیں اور نیوبیلائزر دے کر ہوٹل بھیج دیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’مجھے اصل اعتماد اس وقت ملا کہ جب یو اے ای میں دوپہر 12 بجے مجھے فٹنس ٹیسٹ دینے کو کہا گیا۔ میرا اصل اعتماد اس فٹنس ٹیسٹ نے بحال کیا۔‘
رضوان نے اسی دوران کا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ’ڈاکٹر صاحب آپ نے کہا کہ رضوان کیسے ہو تو میں نے کہا ڈاکٹر صاحب گھبرانا نہیں ہے قسمت میں ہوا تو زندہ واپس آ جائیں گے اور اگر رزق نہیں ہوا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے جس پر آپ نے کہا کہ یہ باتیں تو نہ کرو۔‘
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے چیف میڈیکل آفیسر نجیب اللہ سومرو نے اس موقع پر کہا: ’جب آپ نے مجھے کال کی اور اپنی حالت کے بارے میں بتایا تو مجھے ایسا لگا کہ آپ کو دل کا دورہ پڑا ہوگا۔ میں نے جب آپ کو آکسیجن لیول چیک کرنے والا آلہ لگایا تو آپ کا آکسیجن سیچوریشن لیول 70 فیصد تھا جبکہ نارمل بالغ شخص کا 90 سے 98 فی صد ہوتا ہے۔ آپ کو سانس نہیں آ رہی تھی اس وقت۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’آپ کی خوراک اور سانس کی نالی سوج چکی تھیں اور اس حد تک سوج چکی تھیں کہ نہ ہی سانس اور نہ ہی کوئی اور چیز اندر جانے کا راستہ تھا۔ آپ کو ایک بہت سخت دوا دینے کی ضرورت تھی جو کہ عام طور پر کھلاڑیوں کو نہیں لگائی جاتی۔ اس کے لیے رات کے تین بجے آئی سی سی سے اجازت لی پھر اس دوا کے بعد آپ کو ڈرپ بھی لگائی گئی اور آپ کے کل 20 ٹیسٹ کیے گئے۔‘
انہوں نے رضوان کو مزید بتایا کہ ’آپ کے معاملے میں سات میڈیکل سپیشلسٹ کا کردار تھا، جن میں ایک دل کے تھے، ایک پھیپھڑوں کے، دو آئی سی یو سپیشلسٹ، دو یو کے کے میڈیسن سپیشلسٹ اور ایک میں تھا۔ ہم ہر پانچ سے 10 منٹ کے دوران ڈسکس کرتے تھے کہ اب کیا کرنا ہے۔ ہمارا سارا فوکس یہ تھا کہ آپ کو میچ کے لیے فٹ کرنا تھا۔‘
نجیب اللہ سومرو نے مزید بتایا کہ ’ایک دن آپ سوتے ہوئے بول رہے تھے کہ ’اے اللہ مجھے ہمت دے کہ میں سیمی فائنل کھیلوں، میں کھیلنا چاہتا ہوں۔ آپ کی ایسی سوچ تھی، میں نے بہت سے کیسز ڈیل کیے ہیں مگر یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور بہت چیلنجنگ کیس اس لیے بھی تھا کہ آپ اتنی زیادہ طبیعت کی خرابی کے باوجود اتنے حوصلہ مند تھے۔‘
گفتگو کو سمیٹتے ہوئے پاکستانی بلے باز محمد رضوان نے کہا: ’ہم اس گفتگو کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ بیماری اور صحت اللہ تعالی کی طرف سے آتی ہے سو اس میں ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور خود پر بھروسہ رکھتے ہوئے اچھی چیزوں کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ مجھے ٹیم، ڈاکٹرز اور ہر طرف سے مثبت رویہ ملا اور ساتھ ہی اللہ نے ہمت دی جس سے میں ٹیم کے لیے کھیلنے کے قابل ہوا۔ اسی لیے میرا یہی پیغام ہے کہ ہمت کرنی چاہیے۔‘