پاکستان میں طالبان کی کالعدم تحریک نے اعلان کیا ہے کہ افغان طالبان کی حکومت کی ثالثی میں ان کے حکومت پاکستان کی کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں جس کے مطالبے پر انہوں نے 30 مئی تک جنگ بندی میں توسیع کا اعلان کیا ہے۔
میڈیا کو ترجمان تحریک طالبان پاکستان محمد خراسانی کے نام سے جاری ایک بیان میں ٹی ٹی پی نے تصدیق کی کہ محسود قبیلہ کے 32 افراد پر مشتمل کمیٹی اور ملاکنڈ ڈویژن کے مختلف اقوام کی نمائندہ 14 افراد پر مشتمل کمیٹی نے بھی حکومت پاکستان کے مطالبے پر تحریک طالبان پاکستان کی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ 13 اور 14 مئی کو ملاقاتیں کیں جس میں ان کا پرزور مطالبہ تھا کہ جب تک مذاکراتی کمیٹیاں بیٹھی ہوں، فریقین کی جانب سے فائربندی کا اعلان ہونا چاہیے۔
اس سے قبل کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے فائربندی میں توسیع کے اعلان کے بعد حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان باظابطہ طور پر مذاکرات کا کوئی اعلان نہیں ہوا تھا۔
افغان طالبان نے بھی پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان کابل میں ہونے والے مذاکرات کی تصدیق کر دی ہے۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اسلامی امارات نیک نیتی سے ان مذاکرات کی کامیابی چاہتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جہاں مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں وہیں ایک مختصر دورانیے کا معاہدہ بھی ہوا ہے۔‘
د پاکستان حکومت او د پاکستان د طالبانو د تحریک تر منځ د اسلامي امارت په منځګړیتوب په کابل کې مذاکرات ترسره شول.
— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) May 18, 2022
د مذاکراتو په جریان کې په اړوندو موضوعاتو کې د پام وړ پرمختګ ترڅنګ په لنډمهاله اوربند هم توافق وشو.۱/۲
طالبان ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کی تھی کہ مذاکرات کا دور دوبارہ شروع ہو چکا ہے جس میں فریقین کی جانب سے شرائط رکھی گئی ہیں جس میں ٹی ٹی پی کی جانب سے ان کے کچھ سرکردہ رہنماوں کی رہائی بھی شامل ہے۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ ’مذاکرات کے لیے قبائلی عمائدین پر شامل ایک جرگہ تشکیل دیا گیا تھا اور وہ جرگہ ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہے۔‘
جنوبی وزیرستان میں گذشتہ ہفتے محسود قبائل کے ایک گرینڈ جرگے میں حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان ثالثی کروانے کے لیے ایک 33 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔
تاہم طالبان ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ محسود جرگہ سرکاری سطح پر نہیں بلکہ ایک قومی جرگہ ہے، اور وہ اپنی مدد آپ کے تحت کوشش کر رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرے۔
ذرائع کے مطابق چونکہ ٹی ٹی پی کے موجودہ سربراہ محسود قبیلے سے ہیں تو جرگے کے اراکین کو امید ہے کہ وہ قبائلی روایات کے مطابق ٹی ٹی پی کو امن مذاکرات پر راضی کریں گے۔
ان کا کہنا تھا: ’ابھی تک طالبان اور حکومت نے باضابطہ مذاکراتی ٹیم کے ناموں کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن دونوں ٹیموں کے مابین ایک نشست ہوئی ہے۔ اس نشست میں کن امور پر بات کی گئی ہے، اس بارے میں ابھی تک فریقین کی جانب سے کچھ نہیں کہا گیا ہے۔‘
طالبان کے قریب ذرائع مذاکرات کی تصدیق کرتے ہیں لیکن ٹی ٹی پی اور حکومت کی جانب سے ابھی تک باضابطہ طور پر مذاکرات شروع ہونے کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
کالعدم ٹی ٹی پی کو کور کرنے والے ایک صحافی کا کہنا تھا کہ بات چیت شروع ہوئی ہے۔ صحافی رسول داوڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے لیکن ابھی تک ان میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
رسول داوڑ نے بتایا کہ مذاکرات میں ضمانت دینے والے اور مذاکرات کار دونوں افغان طالبان میں سے ہیں، اور دونوں مذاکراتی ٹیموں کے درمیان ایک ملاقات بھی ہوئی تھی۔
ان کے مطابق ٹی ٹی پی کے حکومت پاکستان سے مطالبات میں سب سے بڑا مطالبہ ان کے کچھ رہنماوں کو رہا کرنا ہے جو ابھی تک رہا نہیں ہوئے ہے۔
رسول داوڑ نے بتایا کہ ٹی ٹی پی نے اپنی جانب سے فائر بندی کی تصدیق ہے اور یہ بتایا ہے کہ عیدالفطر کے دنوں میں فائر بندی میں مذاکرات کی وجہ سے پانچ دن توسیع کی گئی ہے جو ابھی تک برقرار ہے اور 16 مئی تک ختم ہوجائے گی۔
رسول داوڑ نے بتایا کہ 16 مئی کے حملوں پر پابندی ختم ہونے یا نہ ہونے کے بعد معلوم ہوگا کہ بات چیت میں کوئی پیش رفت ہوئی ہے یا نہیں۔
یاد رہے کہ اس فائر بندی کے حوالے سے نہ طالبان اور نہ حکومت کی جانب سے تصدیق ہوئی ہے کہ یہ حالیہ ممکنہ مذاکرات کی وجہ سے ہوئی یا نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مذاکرات کی باتیں کب سے کی جارہی ہے؟
ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی باتیں تب شروع ہوئیں جب اگست 2021 میں کابل پر افغان طالبان نے کنٹرول حاصل کر کے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی۔ گذشتہ سال نومبر میں اس وقت کی حکومت نے باقاعدہ طور پر ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات شروع ہونے کی تصدیق کی تھی۔
ٹی ٹی پی کے قریبی ذرائع کے مطابق ان مذاکرات میں تقریباً 100 طالبان رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ مذاکرات شروع ہونے کے بعد ٹی ٹی پی اور سکیورٹی فوررسز کی جانب سے فائر بندی کا اعلان بھی کیا گیا تھا تاہم تقریباً ایک ماہ بعد وہ مذاکرات بے نتیجہ ثابت ہوگئے تھے۔
ٹی ٹی پی نے فائربندی ختم کر کے اس وقت میڈیا کو جاری ایک بیان میں بتایا تھا کہ حکومت پہلے کی طرح اب بھی مذاکرات میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی اور یہی وجہ ہے کہ ٹی ٹی پی فائربندی ختم کرنے کا اعلان کرتے ہے۔
ان مذاکرات میں افغان طالبان ثالثی کا کردار ادا کر رہے تھے۔ اب حالیہ مذاکرات میں دوبارہ افغان طالبان کا ذکر سامنے آرہا ہے لیکن افغان طالبان کی جانب سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
انڈپیندنٹ اردو نے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کو اس حوالے سے پیغام بھیجا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
اسی طرح انڈپینڈنٹ اردو نے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کو تبصرے کے لیے پیغام بھیجا لیکن انہوں نے پیغام پڑھنے کے باوجود جواب نہیں دیا۔
’ٹی ٹی پی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی‘
ایک طرف تو مذاکرات کی چہ مگوئیاں ہورہی ہے تو دوسری طرف ٹی ٹی پی کی جانب سے نو مئی کو سکیورٹی فوسرز کے نام ایک پیغام میں اپنی سرگرمیوں میں آئندہ دنوں مزید تیزی کی تنبیہ دی تھی۔ یہ پیغام ٹی ٹی پی کی جانب سے میڈیا کے نمائندوں کو بھیجا گیا تھا۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری اعداد و شمار میں دعوی کیا گیا کہ انہوں نے رواں سال کے ابتدائی چار ماہ میں مجموعی طور پر 158کارروائیاں کی ہیں جن میں سب سے زیادہ حملے یعنی 54 اپریل میں ہوئے۔ تاہم مئی میں ٹی ٹی پی کی جانب سے کسی بھی حملے یا کارروائی کے بارے میں کوئی بیان میڈیا کو جاری نہیں کیا گیا ہے۔