امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ریاست نیو یارک کے شہر بفیلو میں ’نفرت پر مبنی جرم‘ میں ایک 18 سالہ سفید فام حملہ آور نے ایک سپر مارکٹ میں فائرنگ کی جس سے 10 افراد ہلاک ہوگئے ہیں اور تین زخمی ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق حملہ آور ہفتے کو رائفل اٹھائے اور فوجی طرز کے کپڑے پہنے ٹاپس فرینڈلی مارکیٹ پہنچا جہاں اس نے پارکنگ میں اور پھر سٹور میں داخل ہو کر سپر مارکیٹ کے عملے اور زیادہ تر سیاہ فام گاہکوں پر فائرنگ کی۔
حکام کے مطابق حملہ آور نے ہیلمٹ پہن رکھی تھی جس میں نصب کیمرے سے وہ ایپ ٹوئچ پر حملے کی لائیو سٹریمنگ کر رہا تھا۔ پلیٹ فارم نے کچھ ہی دیر میں اس کی لائیو سٹریم بند کر دی۔
پولیس کے مطابق اس نے پولیس کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے پہلے 11 سیاہ فام اور دو سفید فام افراد کو گولی ماری۔
مشتبہ حملہ آور کی شناخت پیٹن گینڈرون کے طور پر کی گئی جو بفیلو سے 320 کلو میٹر دور کونکلن، نیو یارک کے رہائشی ہیں۔
دی انڈپینڈںٹ کے مطابق، ملزم پر ہفتے کے روز فرسٹ ڈگری میں قتل کا الزام عائد کیا گیا تھا، جس میں اس نے قصوروار نہ ہونے کی استدعا کی تھی۔
ریاستی اہلکاروں کے مطابق وہ ’کئی گھنٹوں کا سفر‘ طے کر کے حملہ کرنے یہاں پہنچا، تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بفیلو پولیس کمشینر جوسف گریمیگلیہ نے میڈیا کو بتایا کہ حملہ آور نے سٹور کے باہر چار لوگوں کو گولی ماری، جن میں سے تین وہیں جان سے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ سٹور کے سکیورٹی گارڈ، بفیلو پولیس کے ریٹائرڈ افسر تھے اور انہوں نےحملہ آور کو روکنے کے لیے اس پر گولیاں چلائیں مگر چونکہ اس نے بلٹ پروف ویسٹ پہن رکھی تھی تو اسے نقصان نہیں ہوا۔
پولیس کمشینر جوسف گریمیگلیہ نے کہا کہ حملہ آور نے گارڈ کو قتل کیا اور پھر سٹور میں داخل ہو کر اوروں پر گولیاں چلائیں۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس نے سٹور کی ایک لین میں اس کا سامنا کیا تو اس نے رائفل اپنی گردن پر رکھ لی مگر پولیس اہلکاروں نے اسے سمجھا کر گولی چلانے سے روک لیا۔
ایف بی آئی کے بفیلو دفتر کے انچارج سپیشل ایجنٹ سٹیفن بیلونگیا نے میڈیا کو بتایا کہ شوٹنگ کی تحقیقات نفرت پر مبنی جرم کے طور پر کی جا رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’ہم اس کی تحقیقات نفرت پر مبنی جرم اور نسل پرستی پر مبنی پرتشدد انتہاپسندی کے طور پر کر رہے ہیں۔‘
اے پی کے مطابق بفیلو کے میئر بائرن براؤن نے کہا: ’یہ کسی بھی برادری کے لیے سب سے برا خواب ہے اور ہم ابھی تکلیف میں ہیں۔ ہم جو تکلیف محسوس کر رہے ہیں، اس کی گہرائی بیان نہیں کی جاسکتی۔‘
اس سے قبل ایک پریس بریفنگ میں ایری کاؤنٹی شیریف جان گارسیا نے اسے نفرت پر مبنی جرم قرار دیا تھا۔
انہوں نے کہا: ’یہ صرف برائی تھی۔ یہ سیدھا سادھا نسل پرستی پر مبنی ہیٹ کرائم تھا جو ہماری کمیونٹی سے باہر سے کسی نے آ کر کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کرین جین پیئر نے کہا صدر جو بائیڈن کو اس حوالے سے اپ ڈیٹس دی جا رہی ہیں اور انہوں نے خاتون اول کے ساتھ ہلاک اور زخمی ہونے والوں اور ان کے پیاروں کے لیے دعا کیا۔
ٹاپز فرینڈلی مارکیٹس نے ایک بیان میں شوٹنگ پر افسوس کا اظہار کیا اور متاثرہ افراد اور ان کے اہل خانہ کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔
روئٹرز کے مطابق عینی شاہد شونیل ہیرس، جو مارکیٹ میں مینیجر ہیں، نے بفیلو نیوز کو بتایا انہوں نے 70 تک گولیوں کی آواز سنی، اور وہ سٹور کے دوسرے دروازے سے بھاگنے کی کوشش میں وہ کئی بار گریں۔
انہوں نے اخبار کو بتایا: ’وہ ایسا لگ رہا تھا کہ شاید فوج میں ہو۔‘
کیتھرن کروفٹن، جو قریب ہی رہتی ہیں، نے بتایا کہ انہوں نے اپنے دروازے سے شوٹنگ کو شروع ہوتے دیکھا۔ ’اس نے اس خاتون کو گولی ماری۔ وہ بس سٹور میں جا رہی تھیں۔ پھر اس نے ایک اور خاتون کو گولی ماری۔ وہ اپنی گاڑی میں سامان ڈال رہی تھیں۔ میں نیچے ہوگئی کیونکہ مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ مجھے بھی گولی نہ مار دے۔‘
گذشتہ سال مارچ میں بھی کولوراڈو کے شہر بولڈر میں ایک گروسری سٹور میں ایسی ہی ایک شوٹنگ میں 10 لوگ مارے گئے تھے، جبکہ گذشتہ ماہ بھی ایک ’سنائیپر نما‘ حملہ آور نے واشنگٹن کے ایک علاقے میں اپنی جان لینے سے قبل چار لوگوں پر گولیاں چلائی تھیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ میں کئی ماس شوٹنگس کے باوجود ملک میں اسلحے کے حوالے سے قوانین میں اصلاحات کی کوششیں کانگریس میں کئی بار ناکام ہو چکی ہیں۔
سینٹرز فار ڈیزیز کںٹرول کے مطابق امریکہ میں 2020 میں اسلحے سے منسلک 19 ہزار 350 قتل ریکارڈ ہوئے، جو 2019 کے مقابلے میں 35 فیصد زیادہ ہے۔