پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کی تصدیق کا عمل تاحال تعطل کا شکار ہے اور بلائے جانے کے باوجود پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی پیر کو سپیکر چیمبر نہیں آئے اور نہ ہی تصدیق کی۔
آج (منگل کو) بھی سپیکر اسمبلی نے پی ٹی آئی کے 30 اراکین کو طلب کر رکھا ہے۔
پی ٹی آئی کے مستعفی ہونے والے ایم این ایز کی کُل تعداد 131 ہے، اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے پہلے ہی یہ اعلان کر رکھا ہے کہ ان کا کوئی رکن اسمبلی استعفوں کی تصدیق کے لیے پارلیمنٹ نہیں جائے گا۔
پیر (چھ جنوری) کو سپیکر راجہ پرویز اشرف استعفوں کی تصدیق کے لیے اپنے چیمبر میں موجود رہے، جس کے لیے صبح 11 سے دوپہر ڈھائی بجے تک کا وقت مختص کیا گیا تھا اور حلقہ نمبر ایک سے حلقہ 30 کے اراکین اسمبلی کو ذاتی حیثیت میں تصدیق کے لیے بلایا گیا تھا، جہاں ہر رکن اسمبلی کے لیے پانچ منٹ مقرر کیے گئے، تاہم ڈھائی بجے تک انتظار کرنے کے باوجود کوئی بھی استعفوں کی تصدیق کے لیے نہیں پہنچا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تصدیق نہ ہوئی تو تحریک انصاف کے اراکین کے دیے گئے استعفوں کی حیثیت کیا ہو گی؟
اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے پارلیمانی رپورٹر ایسوسی ایشن کے سیکرٹری آصف بشیر چوہدری سے گفتگو کی، جنہوں نے بتایا کہ ’بادی النظر میں اراکین کی جانب سے استعفوں کی تصدیق کے بغیر سپیکر کے لیے انہیں منظور کرنا مشکل ہوگا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان سمیت تحریک انصاف کے اراکین بدستور رکن اسمبلی تصور ہوں گے اور اسمبلی سیکریٹریٹ ان کی تنخواہ جاری کرنے کا پابند بھی ہوگا۔
مزید پڑھیے: پی ٹی آئی استعفے: ’بعض دستخط اصل سے مطابقت نہیں رکھتے‘
آصف بشیر چوہدری نے بتایا کہ 10 جون کو سپیکر راجہ پرویز اشرف تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کے حوالے سے فیصلہ کریں گے۔
سابق دور حکومت میں پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی چار ماہ اسمبلی سے غیر حاضر رہنے اور استعفے دینے کے بعد دوبارہ اسمبلی میں واپس آ گئے تھے اور عمران خان سمیت تمام اراکین نے ان چار ماہ کی تنخواہ بھی وصول کی تھی۔
اراکین اسمبلی کا کہنا تھا کہ استعفے منظور نہ ہونے کی صورت میں تحریک انصاف کا اسمبلی واپسی کا راستہ کھلا رہے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس معاملے پر جب تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا: ’موجودہ سپیکر کے پاس نظر ثانی کا اختیار ہی نہیں ہے کیونکہ قاسم سوری اسمبلی ہال میں سب کے استعفے منظور کر چکے ہیں۔‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ قوانین کے مطابق اراکین اسمبلی کے لیے ذاتی حیثیت میں بھی پیش ہو کر حتمی تصدیق کرنا لازمی ہے؟ تو فواد چوہدری نے جواب دیا: ’ہمارا موقف واضح ہے کہ ہم ایک بار استعفے دے چکے ہیں، تصدیق کے لیے نہیں جائیں گے۔‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ اگر 10 جون کو سپیکر اسمبلی تصدیق نہ ہونے کی وجہ سے استعفے مسترد کرکے رکنیت برقرار رکھتے ہیں تو کیا اراکین اسمبلی تنخواہ لیں گے؟ جس پر فواد چوہدری نے جواب دیا: ’یہ تو ہم 10 جون کے بعد دیکھیں گے کہ ہم کیا فیصلہ کریں گے۔‘
یہ بھی پڑھیں: 123 پی ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور: قاسم سوری
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے 14 اپریل 2022 کو پی ٹی آئی کے 123 اراکین کے استعفے منظور کرنے کی تصدیق کی تھی، جس پر قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے اعتراض اٹھایا تھا اور استعفوں کی منظوری کا نوٹیفیکشن الیکشن کمیشن کو نہ بھیجنے کی وجہ بھی قومی سیکریٹریٹ کا اعتراض ہی بتائی جا رہی ہے۔
قواعد کے مطابق استعفوں کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ اس رکن کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو نوٹیفکیشن بھیجتا ہے اور اسی نوٹیفیکشن کے مطابق الیکشن کمیشن رکن کو ڈی نوٹیفائی کرتا ہے۔
سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے حلف اٹھانے کے فوری بعد قاسم سوری کے منظور کردہ استعفوں کو دوبارہ جائزہ لینے کے لیے اپنے پاس منگوائے تھے اور اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی کے بعض اراکین کے دستخط اصل دستخط سے مطابقت نہیں رکھتے، جس کی تصدیق ہونا ضروری ہے۔