فہد ایک ہاتھ سے موٹر سائیکل چلاتے ہیں اور فوڈ پانڈا کے دیگر رائیڈرز کی طرح کھانے کے آرڈر لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ اس سے قبل وہ ملتان میں الیکٹرانک کی دکان پر کام کرتے تھے مگر ان کے خواب انہیں کراچی کھینچ لائے۔
کراچی سپر ہائی سے متصل علاقے سہراب گوٹھ کے ایک کچے مکان میں تین سال سے رہائش پذیر محمد فہد نے کراچی کے بے رحم ٹریفک اور خراب سڑکوں پر ایک ہاتھ سے موٹرسائیکل چلانے کے ہنر سے اپنے آپ کو فوڈ پانڈا میں بطور رائیڈر منوایا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے فہد نے بتایا: ’ایک ہاتھ نہ ہونے کے باعث مجھے صرف بائیک چلانے میں ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سے کاموں میں مشکل پیش آتی ہے، مگر میں محنت کرنے پر یقین رکھتا ہوں، مانگنے میں نہیں۔ اسی لیے میں نے اپنے آپ کو کبھی معذور نہیں سمجھا۔‘
فہد نے بتایا: ’میں پچھلے تین سال سے فوڈ پانڈا میں بطور رائیڈر کام کر رہا ہوں۔ اس سے پہلے میں ملتان میں الیکٹرانک کی دکان میں کام کرتا تھا۔ کراچی شفٹ ہونے کے بعد میں نے بہت سی جگہوں پر نوکری تلاش کی مگر مجھے نہیں ملی۔ اسی دوران میں نے فوڈ پانڈا میں رائیڈر کی ملازمت کے لیے بھی اپلائی کیا تھا۔‘
’میں جب انٹرویو کے لیے آیا تو فوڈ پانڈا کے مینیجر نے مجھ سے پوچھا کہ ایک ہاتھ کے بغیر میں بائیک کیسے چلاؤں گا اور آرڈر کیسے ڈیلیور کروں گا؟ اس پر میں نے ان سے کہا کہ وہ میرا بائیک چلانے کا ٹیسٹ لے لیں۔ میں نے پھر فوڈ پانڈا کے مینیجر کو اپنے پیچھے بٹھا کر بائیک چلائی جس کے بعد مجھے یہ نوکری مل گئی۔‘
فوڈ پانڈا کی اسسٹنٹ مینیجر برائے رائیڈر انگیجمنٹ سیدہ زہرہ نے بتایا کہ ’فہد تین سال سے ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ وہ نہ صرف کراچی کے مختلف علاقوں میں کھانا اور پانڈا مارٹ کی چیزیں ڈیلیور کرتے ہیں بلکہ ہمیں بھی بہت متاثر کرتے ہیں۔‘
بقول سیدہ زہرہ: ’فہد فوڈ پانڈا کے پہلے معذور رائیڈر ہیں۔ انہیں نوکری پر رکھنے سے قبل ہمیں بھی نہیں معلوم تھا کہ یہ تجربہ کیسا رہے گا۔ رائیڈر کے لیے سب سے ضروری چیز ہے بائیک چلانا اور ایک ہاتھ نہ ہونے کے باوجود بھی وہ بہترین بائیک چلاتے ہیں۔ باقی رائیڈرز کی طرح وہ بھی بلڈنگز میں کئی فلور چڑھ کر اوپر جاتے ہیں۔ ہمیں ان کی طرف سے یا گاہکوں کی طرف سے کبھی کوئی شکایت نہیں ملی۔‘
فہد اپنے بائیں بازو سے ڈھائی سال کی عمر میں ایک حادثے کے باعث محروم ہوگئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا: ’میں جب ڈھائی سال کا تھا تو اپنے بھائیوں کے ساتھ روڈ کراس کر رہا تھا۔ وہیں ایک گاڑی سے میری ٹکر ہوئی اور موقعے پر ہی میرا الٹے ہاتھ کا بازو کٹ گیا۔ اس کے بعد ہم نے بہت کوشش کی کہ میرا بازو لگ جائے مگر وہ اس طرح سے کٹا کہ دوبارہ نہیں لگ سکتا تھا۔‘
بقول فہد: ’میرے لیے ایک ہاتھ سے مینوئل بائیک چلانا کافی مشکل ہوتا تھا۔ خاص طور سے ٹریفک کے دوران مجھے بہت پریشانی ہوتی تھی۔ گاڑی کو روکنا، گیئر نکالنا، پھر اس کے بعد آرڈر ڈیلیور کرنا یہ سب اکثر اتنا مشکل ہوتا تھا کہ شام تک میرا سیدھا ہاتھ بہت درد کرنے لگتا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرا یہ مسئلہ ایک گاہک کو آرڈر ڈیلیور کرنے سے حل ہوجائے گا جو کہ خود بھی معذور تھے۔‘
’میں ایک دن ایئرپورٹ کے علاقے میں ایک گاہک کو آرڈر دینے گیا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ گاہک بھی معذور ہیں۔ ان کی لوکیشن پر پہنچ کر میں نے انہیں کال کی اور کہا کہ میں آپ کی لوکیشن پر آچکا ہوں اور آپ کے گیٹ پر کھڑا ہوں اور وہ نیچے آکر اپنا آرڈر مجھ سے لے لیں۔‘
’انہوں نے کہا کہ میں آرہا ہوں تو میں ان کا انتظار کرنے لگا۔ وہ صاحب تقریباً 20 منٹ کے بعد اپنی بلڈنگ سے نیچے آئے۔ جب میں نے انہیں دیکھا تو وہ بھی معذور تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ سر آپ مجھے بتا دیتے کہ آپ نیچے نہیں آسکتے تو میں آپ کو آرڈر دینے کے لیے اوپر آجاتا۔ تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میں نے آپ کو کیمرے سے دیکھا کہ آپ ایک ہاتھ سے بائیک چلا کر آرڈر ڈیلیور کرنے کے لیے آئے ہیں، تو آپ کو دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔‘
’میں نے سوچا کہ ماشا اللہ سے یہ ایک ہاتھ سے بائیک چلا رہے ہیں اور مجھے آرڈر ڈیلیور کرنے کے لیے آئے ہیں، تو میں آپ کا استقبال کرنے کے لیے نیچے آگیا۔ میں مایوس ہوتا تھا کہ میں معذور ہوں اور میں کوئی کام نہیں کر سکتا، شاید ہم معذور لوگ کئی کام کر ہی نہیں سکتے لیکن میں نے آپ کو دیکھا تو مجھے بہت حوصلہ ملا۔ میں آپ کو سلام پیش کرتا ہوں کہ آپ نے ہم معذور لوگوں کا نام روشن کیا ہے۔‘
’انہوں نے میری ایک ویڈیو بنائی جو مجھے لگا کہ وہ اپنی فیملی کو دکھانے کے لیے بنا رہے ہیں مگر انہوں نے وہ ویڈیو ’سول برادرز‘ نامی فیس بک گروپ پر اپ لوڈ کی جہاں انہوں نے میرے لیے لوگوں سے ایک آٹومیٹک بائیک کی اپیل کی۔ ان کی یہ پوسٹ دیکھ کر ’صدقہ جاریہ ویلفیئر فاؤنڈیشن‘ نامی سماجی تنظیم نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے آٹومیٹک بائیک دی جس سے میری زندگی میں اب بہت آسانی پیدا ہوگئی ہے۔‘
’میں دیکھتا ہوں کہ میری طرح کے کئی معذور افراد ایک بازو یا ایک ہاتھ نہ ہونے کے باعث سڑکوں اور چوراہوں پر بھیک مانگنا شروع کردیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ معذور افراد کو ہمت نہیں ہارنی چاہیے، محنت کرنی چاہیے اور اللہ سے مانگنا چاہیے انسان سے نہیں۔‘