وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے بدھ کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے کمانڈرز کو عام معافی دیے جانے کی تمام خبروں کی تردید کی ہے۔
انہوں نے آج ایک پریس کانفرنس میں منگل کو پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے ان کیمرا اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’کل عسکری قیادت نے تحریک طالبان پاکستان کے رہنماؤں کو ایمنسٹی دینے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔‘
انہوں نے بتایا کہ کمیٹی کے ایک رکن نے سوال کیا تھا کہ ٹی ٹی پی کمانڈرز کو ایمنسٹی دینے کی خبر میں کتنی صداقت ہے، اس کے جواب میں عسکری قیادت نے کہا کہ ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی سے اس حوالے سے رابطہ کیا لیکن ان کا موقف نہ مل سکا۔
ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے گذشتہ ہفتے ایک یو ٹیوب انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ہمارے کچھ ساتھیوں کو رہا کیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ساتھیوں کی گرفتاری اور ان پر جبر کا سلسلہ جاری ہے اور پاکستان کا یہ غیر سنجیدہ رویہ مذاکراتی عمل کو متاثر کر سکتا ہے۔‘
جب نور ولی محسود سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان حکومت ٹی ٹی پی کو ہتھیار ڈالنے اور آئین پاکستان تسلیم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے؟‘ تو اس پر ان کا کہنا تھا: ’مذاکراتی عمل میں مختلف قسم کے مطالبے سامنے آتے ہیں لیکن جو معقول ہو ان پر بات کی جا سکتی ہے۔ لیکن جو مطالبات تحریک کی ساکھ کو مجروح کریں وہ مطالبات انہیں قطعی طور پر قابل قبول نہیں۔‘
اس سے قبل فوجی عدالت نے ٹی ٹی پی کے دو کمانڈرز کو سزائیں سنا رکھی ہیں۔ 2016 میں کمانڈر محمود خان کو عمر قید جبکہ مسلم خان کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
صحافی احسان اللہ ٹیپو محسود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’رانا ثنا اللہ کا بیان زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ ہمیں مذاکراتی عمل میں شریک سینیئر عسکری حکام نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان ٹی ٹی پی کمانڈرز محمود خان اور مسلم کو صدارتی معافی دی جا چکی ہے۔ ہمیں حیرانی ہو رہی ہے کہ اب وزیر داخلہ نے یہ بیان کس تناظر میں دیا؟‘
وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں پیر کو پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس ہوا تھا۔
اجلاس کے بعد سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ آئین کے تحت تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات ہونے چاہییں۔
انہوں نے کہا: ’اگر وہ اپنی تنظیم تحلیل کردیں۔ پاکستان کا آئین تسلیم کریں تو مذاکرات ہوں گے۔‘
کامل علی آغا نے مزید بتایا کہ سٹیرنگ کمیٹی میں صرف پارلیمانی ممبران ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ارکان کے تمام سوالات کے جواب دیے۔
انہوں نے بتایا: ’آج تک پارلیمنٹ کے ساتھ جو امور زیر بحث نہیں آئے ان امور پر بھی بریفنگ دی گئی۔ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے بارے میں عسکری حکام نے واضح کیا کہ جو بات پارلیمنٹ واضح کرے گی اسی پر عمل ہوگا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اجلاس کے اختتام پر بتایا: ’تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مشروط مذاکرات کرنے کے لیے پارلیمان میں اتفاق ہو گیا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ بہت تفصیل سے بات چیت ہوئی مباحثہ ہوا لیکن اتفاق اسی بات پر ہوا کہ مذاکرات میں بات آگے بڑھنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں حکومت کی طرف سے تمام پہلوؤں کا احاطہ ہو گا۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ افغانستان کی حکومت کی سہولت کاری سے ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کا عمل جاری ہے۔
مذاکراتی کمیٹی حکومتی قیادت میں سول اور فوجی نمائندوں پر مشتمل ہے۔ بریفنگ میں کہا گیا کہ کمیٹی آئین پاکستان کے دائرے میں طالبان سے بات چیت کررہی ہے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ حتمی فیصلہ آئین پاکستان کی روشنی میں پارلیمنٹ کی منظوری اور اتفاق رائے سے کیا جائے گا۔
پارلیمانی کمیٹی کے 27 اراکین، سینیٹ و قومی اسمبلی کی دفاعی کمیٹیوں کے اراکین، وفاقی سیکرٹریز، چیف سیکرٹریز بھی اجلاس میں موجود تھے۔